[]
ذکیہ صالحاتی
ماہ رمضان المبارک کی آمد آمدہے،ملت اسلامیہ کا ہر فرد سراپا انتظار بنے اس ماہ مبارک کی آمد کا منتظر ہے۔رمضان المبارک کا مہینہ وہ فصل بہار ہے جس میں اللہ رب العزت اپنی خاص عنایات کے ساتھ اپنے ان بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے،جو اس میں رب کی رحمت اور مغفرت کے منتظر ہوتے ہیں۔یہ وہ ماہ مقدس ہے،جس میں رب العزت نے اپنا کلام نازل کیا۔اس مہینے میں نفلی عبادتوں کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب دیگر ایام کے 70 فرائض کے برابر کر دیا جاتا ہے۔یہ وہ مہینہ ہے، جس میں رکھا گیا روزہ،روزہ دار کے لیے جہنم سے ڈھال بن جاتا ہے۔
رمضان المبارک چوں کہ نزول قرآن کا مہینہ ہے،اس لیے اس مہینے میں ہر مسلمان کے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری کی صفت پیدا ہو جاتی ہے۔ہم دردی وغم گساری سے دل معمور ہو جاتے ہیں اور جذبۂ خیر خواہی اور خدمت خلق بھی عام دنوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی عملی زندگیوں میں دو چند ہو جاتا ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ صرف اخروی لحاظ سے ہی ہمارے لیے فائدہ مند نہیں ہے،بلکہ دنیاوی اعتبار سے بھی نہایت مفید ہے۔ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنے سے روحانی فوائد کے ساتھ ساتھ بے شمار جسمانی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔اس کی مثال اس طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ کوئی گاڑی یا کوئی مشین ہے،کچھ عرصہ استعمال کرنے کے بعد اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اس کی ٹیوننگ ضروری ہوتی ہے،اسی طرح سال کے 11 مہینوں میں جسم کے مختلف خلیوں یعنی Cells میں فاسد مادے پیدا ہو جاتے ہیں،روزے میں بھوکا پیاسا رہنے سے یہ فاسد مادے جسم سے خارج ہو جاتے ہیں اور ہمارا جسمانی نظام بہتر ہو جاتا ہے۔
روزہ اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ حصول صحت کا بھی ذریعہ ہے۔سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ روزہ رکھنے سےانسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اورکئی بیماریوں کا علاج روزے کی وجہ سے ممکن ہو جاتا ہے۔جیسے: بھولنے کی بیماری،ذیابیطس اور دل کے امراض وغیرہ۔اس کے علاوہ روزے میں اگر کھانے پینے میں اعتدال اختیار کیا جائے تو وزن کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
لیکن اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ ماہ رمضان المبارک میں ڈاکٹروں کے پاس مریضوں کا رش بڑھ جاتا ہے اور عموماً سینے میں جلن،تیزابیت اور معدے کے امراض کے مریض دواخانے کا رخ کرتے ہیں۔وجہ یہی ہے کہ ہم اس ماہ کو لذت کام و دہن کا مہینہ بنا لیتے ہیں اور بنا سوچے سمجھے ہر چیز پر ہاتھ صاف کرنے کو اپنا پورا حق سمجھتے ہیں۔اسی چکر میں خواتین بھی اس ماہ مقدس کی مبارک ساعتیں باورچی خانے میں صرف کرتی ہیں اور اس ماہ سے ویسا فیض یاب نہیں ہو پاتیں جیسا کہ اس کا حق ہے۔
کچھ گھروں میں خواتین باورچی خانے میں تو وقت نہیں گزارتیں،کیوں کہ آج کے دور میں ہر چیز بازار میں دست یاب ہے،لہٰذا وہ اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں،لیکن نتیجے کے طور پر بازاری چیزیں کھانے کی وجہ سے ان کا معدہ انھیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس ماہ سے خاطر خواہ فیض یاب ہو سکیں۔
خواتین گھر کی بنیاد ہیں۔گھر والوں اور خود ان کی اپنی صحت کا دارومدار ان ہی پر ہوتا ہے۔لہٰذا اس سلسلے میں ان کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔خواتین کو چاہیے کہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اپنا منصوبہ بنا لیں،اس منصوبے میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہونی چاہیے وہ ہے بجٹ۔عام طور پر رمضان المبارک میں گھروں کا بجٹ دوگنا سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔
لہٰذا ہم منصوبہ بناتے وقت یہ کوشش کریں کہ اس ماہ میں بھی ہمارا گھریلو بجٹ وہی ہو جو دوسرے مہینوں میں ہوتا ہے،اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم لذت کام و دہن پر کنٹرول رکھیں،جب ہم اس پر قابو رکھیں گے تو بہت ہی آسانی سے ہم اپنی عبادات جیسے نوافل،تلاوت،تفسیر قرآن اور قیام لیل وغیرہ کو خاطر خواہ وقت دے سکیں گے،ساتھ ہی جب ہمارا گھریلو بجٹ قابو میں ہوگا تو ہم دوسروں کی مدد بھی زیادہ فراخ دلی اورخوش دلی کے ساتھ کر سکیں گے۔
ایک باشعور مسلم خاتون ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا بھی خیال رکھیں اور اپنے گھر والوں کے لیے بھی آسانیاں فراہم کریں،اورارشاد خداوندی کے مانند نیکی و تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار بنیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ مقدس سے پوری طرح فیض یاب ہونے کی توفیق دے،آمین!
٭٭٭