اسقاطِ حمل

[]

سوال:- بہت سی دفعہ عورت کو حمل قرار پاجاتا ہے ؛ لیکن طبی نقطۂ نظر سے یا کسی اور وجہ سے اس کو ساقط کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، یہ کس مدت تک جائز ہے ؟

میرے پاس ابھی ایک کیس آیا ہے جس میں حمل پر چھ ماہ عرصہ گذر چکا ہے ؛ لیکن یہ حمل زنا کا تھا ، اس لئے لڑکی اور اس کے والدین حمل ساقط کرانا چاہتے ہیں ، کیا میں اس سلسلہ میں ان کی مدد کرسکتا ہوں ؟

اسی طرح ایک اور خاتون کا کیس ہے ، اس کے حمل پر بھی چھ ماہ سے کچھ کم عرصہ گزرچکا ہے ، میڈیکل رپورٹ یہ ہے کہ اس بچہ کا پچاس فیصد سے زیادہ دماغ نہیں بنا ہے ، اس لئے وہ پیدا ہوگا تو معذور پیدا ہوگا اورکم وقت میں مرجائے گا ، کیا ایسے حمل کو ساقط کرایا جاسکتا ہے ؟ ( فیروز اختر، نامپلی)

جواب :- جب تک حمل پر چار ماہ کا عرصہ نہیں گذرا ہو ، کسی طبی عذر کی وجہ سے حمل ساقط کرنے کی گنجائش ہے ، طبی عذر سے مراد یہ ہے کہ مولود کے بیماری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو ، یا عورت کی جان خطرہ میں ہو ، یا اس کے کسی سخت مضرت میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو ، یاکوئی اور شدید قسم کا عذر ہو ،

ایسے ہی اعذار میں بعض اہل علم نے زنا کے حمل کو بھی شامل رکھا ہے ، خواہ زنا بالجبر ہو یا باہمی رضامندی سے گناہ کا ارتکاب ہوا ہو ، اس صورت میں بھی اسقاط حمل کی گنجائش ہے ، چار ماہ سے پہلے بھی کسی معقول عذر کے بغیر اسقاط حمل درست نہیں ؛

لیکن جب حمل پر سولہ ہفتے گذر جائیں تو اب اسقاط بالکل جائز نہیں ، خواہ زنا کا حمل ہو ، یا زیر حمل بچہ ناقص الخلقت ہو ؛ کیوںکہ اب وہ زندہ وجود ہے اور کسی زندہ شخص کو بیمار ہونے کی وجہ سے یا ولد ِزنا ہونے کی وجہ سے قتل کردیا جائے ، نہ اسلام میں اس کی گنجائش ہے اور نہ انسانی نقطۂ نظر سے اس کا کوئی جواز ہوسکتا ہے ،

ناقص الخلقت بچہ کو پیدا ہونے دیا جائے ، جب تک زندگی مقدر ہے ، زندہ رہے گا ، والدین کو اس کی پرورش کا اجر حاصل ہوگا ، اسی طرح ولد الزنا کو پیدا ہونے دیا جائے ؛ البتہ زانی کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس عورت سے نکاح کرے :

ویکرہ الخ … أی مطلقا قبل التصور وبعدہ وجاز لعذر…کالمرضعۃ إذا ظہر بہا الحبل وانقطع لبنھا… قالوا : یباح لھا ان تعالج فی استنزال الدم مادام الحمل مضغۃ أو علقۃ ولم یخلق لہ عضو وقدروا تلک المدۃ بمائۃ وعشرین یوما وجاز لأنہ لیس بآدمی۔ ( ردالمحتار : ۹؍۶۱۵)



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *