[]
ڈاکٹر علیم خان فلکی
آج کل امبانی کے بیٹے کی شادی پر کئی سو کروڑ کے خرچ کے چرچے عام ہیں۔ شاہ رخ خان جیسے اداکاروں کو بھی ان کی اوقات دکھانے کی بھاری رقم ادا کی گئی۔ کسی اداکار کو نچوایا گیا اور کسی اداکارسے مہمانوں کو Serve کروایا گیا۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اسراف جائز ہے یا ناجائز کی بحث کرنے والے مولوی ذہن کے لوگوں نے سب سے زیادہ اِن خرافات کی ویڈیوز کو فاورڈ کیا۔ اِن معصوموں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ خوداِن کے بادشاہوں اور نوابوں نے عاشقی اور شادیوں پر جتنا خرچ کیا، امبانی اور اڈانی اس کا عشرعشیر بھی خرچ نہیں کرسکتے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امبانی نے اُس کی قوم کے عروج کے وقت یہ سب کچھ کیا، لیکن ہمارے نوابوں نے اپنے زوال کے وقت، جب کہ ان کی بادشاہتوں اور نوابیوں کا سورج ڈوبنے کے قریب آچکا تھا، اگرچہ لُٹ گئے لیکن شادی کے تماشوں کو نہیں روکا۔ اُن کے آباواجداد نے جو جنگیں جیتنے کی تاریخ بناکر خوب مال ومتاع چھوڑ کر گئے تھے، ان کی نسلوں نے بغیر جنگ کے سب کچھ ہارنے کی تاریخ بناکر گئے۔
ہم میرتقی میرکی مثنویوں کی زبانی لکھنؤ کا حال بیان کرتے ہیں۔ مضامینِ ڈاکٹر سیدمحی الدین زور جسے سیدرفیع الدین قادری نے مرتب کیا، اور جناب ایس اے شکور صاحب سابق ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی گورنمنٹ آف تلنگانہ نے ماہ نامہ”سب رس“ کے 2023-24 کے رسالوں میں سلسلہ وار شائع کیا، ڈاکٹر زور مرحوم نے ان مثنویوں کی تشریح کے ساتھ جو تبصرہ کیا ہے، وہ امبانی کی فضول خرچی پر فضول تبصرے کرنے والے ہر سادہ لوح کو خود اپنی اور اپنی قوم کی عبرت کے لئے پڑھنا ضروری ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ میرتقی میر لکھنؤ چلے گئے، اگر وہ حیدرآباد، بیجاپور، جوناگڑھ یا بھوپال چلے جاتے تو وہاں کے نوابوں کی عیاشیاں لکھنؤ سے بھی چار ہاتھ زیادہ دیکھتے۔ اس لئے صرف لکھنؤ کو مجرم نہ سمجھئے، ایک زوال یافتہ قوم کی یہ حرامکاریاں یعنی اسراف و تبذیر انگیزیاں ہندوستان کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی تھیں۔ ایک رکشہ راں سے لے کر امراء تلک سارے ان رنگ رلیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ النّاس کاالملک۔ آج کی شادیوں کی بربادیاں صرف آج کی پیداوار نہیں ہیں، یہ لعنت ہمیں ورثہ میں ملی ہیں۔
میرتقی میر کا زمانہ مسلمانوں کے زوال کا زمانہ تھا۔ ایک طرف مرہٹے مغلوں کی ریاستوں کو ختم کرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے، تو دوسری طرف انگریز سراج الدولہ کو ختم کرکے آدھے ہندوستان پر قابض ہوچکے تھے، اور میسور کے ٹیپوسلطان کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ ہرطرف مسلمان معاشرہ اخلاقی،سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر بری طرح شکست و ریخت کے دہانے پر تھا۔ لیکن لکھنؤ کے نوابوں کی عیاشیوں کا یہ عالم تھا کہ غفلت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ڈاکٹر زور میر کی مثنویوں کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ (معذرت کہ ہم ان مثنویوں کو پیش نہیں کرسکتے، ورنہ مضمون بہت طویل ہوجائیگا): ”سلطنتوں کے آخری دور میں عیش و عشرت میں کثرت ہونے لگتی ہے۔ اور بیہودہ رسومات رائج ہوجاتے ہیں۔ ہندوستانی اسلامی حکومت کا بھی یہی انجام ہوا۔ چنانچہ بادشاہوں اور امرا کے عیش پسند ہونے کی وجہ سے رعایا بھی قسم قسم کی بدعنوانیوں پر آمادہ ہوگئی تھی۔
میر کے زمانے میں جب کسی بادشاہ یا امیر کی شادی ہوتی تو کئی دن پہلے ہی تمام شہر میں آرائشیں ہونے لگتیں۔راستوں پر تماشائیوں کا ہجوم رہا کرتا، اور ہر طرف آتش بازیاں کی جاتیں۔ خاص کر شادی کی رات میں بے حد دھوم ہوتی تھی۔ چراغوں اور اناروں کی اِس قدر کثرت کہ راتیں دن معلوم ہونے لگتیں، اور تمام گلی کوچے باغ و بہار نظر آتے۔بادشاہ ہو یا کوئی بڑا امیر، اپنی شادی کی تقریب میں بخششوں کا بازار گرم کردیتا۔ ہر شخص کو اُس کے مرتبے کے مطابق انعام و اکرام یا خلعت عطا کی جاتی، اور اربابِ نشاط خاص اہتمام کے ساتھ گانے بجاے اور ناچنے کے لئے طلب کئے جاتے تھے۔جب شادی کا جلوس نکلتا تو سب سے پہلے نشان کا ہاتھی ہوتا تھا جو زرق برق آرائش کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا سونے کا پہاڑ چل رہا ہے۔ اس کے بعد کئی اور ہاتھی ہوتے تھے جو مست نوجوانوں کی طرح چلتے تھے۔ان تمام کی زیب و زینت زمیں پر وہی سماں پیدا کردیتی تھی جو آسمانوں پر ہویدا رہتا ہے۔جلوس کے آخری میں خاص سواری کا ہاتھی ہوتا جو ابربہاری کی طرح جھومتا ہوا جاتا تھا۔ برابر برابر پلٹنیں چلتی تھیں۔ رنگ رنگ کے خوبصورت اور شوخ و شنگ گھوڑے عجیب بہار دکھایا کرتے۔ لوگ جلوس پر اس کثرت سے پھول پھینکتے کہ راستوں میں ہر طرف گل بکھرے ہوئے نظرآتے تھے۔ راستوں پر رقاص عورتوں کے لئے تخت سجائے جاتے تھے۔ نوبتیں بجتیں، اچھے اچھے لوگ سوانگ بھرکر نکلتے، کوئی جوگی، کوئی فقیر، کوئی پیر کوئی اوباش، طرح طرح کی نقلیں کی جاتیں تھیں“۔
گویا اُس وقت کے شاہ رخ خان اور سوہا خان بھی اس میں شامل ہوجاتے، ہر طرح کا بھانڈ پن کرتے اور انعام پاتے۔ آج امبانی یا اپنے نوابوں کی شادیوں پر تنقید یا تبصرہ کرنے والا پہلے اپنے دامن میں جھانکے۔ جب وہ خود اگر مفلس ہے تب بھی زکوٰۃ خیرات مانگ کر، اگر مڈل کلاس ہے تو گھر بیچ کر یا سود پر پیسہ لاکر اور اپنے بیٹوں کو بزنس مین بنانے کے بجائے دامادوں پر پیسہ لٹا کر شادیاں کررہا ہے، امیر اپنے Status کے لئے شاندار شادیاں کررہا ہے تو پر شخص خود انصاف کرے اور یہ بتائے امبانی ہوں کہ نواب، جب ان کے پاس دولت ہی دولت ہے تو وہ کیوں نہ کریں؟
ہمارے نوابوں کی شاہ خرچیاں صرف شادیوں پر ہی ختم نہیں ہوئیں۔آج کے فاشسٹ کہتے ہیں کہ مسلمان بادشاہوں نے ہندوستان میں اسلام کوزبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی۔خیریہ فاشسٹ تو پیدائشی جھوٹے ٹھہرے، حقیقت میں ان تمام بادشاہوں نے اسلام پھیلایا یا کیا پھیلایا میرتقی میر ہی کی مثنویوں کی زبانی دیکھ لیجئے۔ ڈاکٹر زور نے تشریح میں لکھا ہے کہ”ہولی کی عید میں بادشاہ اور امرا خاص دلچسپی لیتے تھے۔ ایک دوسرے پر رنگوں کے شیشے کے شیشے ڈالے جاتے، جس کی وجہ سے مکانوں کے صحن ”رشکِ بوستاں“ بن جاتے۔ مختلف رنگوں میں بھیگے ہوئے نوجوان اس طرح چلتے پھرتے جیسے نہروں پر گل دستے بہتے رہتے۔ گلال بھر کر ایک دوسرے پر قمقمے مارے جاتے، اور منہ لال کردیتے۔ امیر امرا کوچوں اور بازاروں میں روشنی کرتے، دریا کے دونوں طرف روشنی کی ٹٹیاں باندھی جاتیں جس کا عکس پانی میں ایک عجیب عالم دکھاتا۔ انگریز آصف الدولہ کو قسم قسم کی آتش بازی کا سامان تحفے میں دیتے۔ خاص ہولی کی رات پوری شان و شوکت اور تزک احتشام کے ساتھ نواب کی سواری نکلتی، عجیب عجیب طرح سے رنگے ہوئے ہاتھی ایک خاص لطف پیدا کرتے تھے۔بادشاہ اور امرا خاص شکار کا اہتمام کرتے۔ زبردست فوجوں کے شور سے جانور بھاگنے لگتے۔ ہر قسم کے جانور کا شکار اس کثرت سے کیا جاتا کہ ساری فوج گوشت ہی گوشت کھاتی رہتی۔ مچھلیوں کے تودے اور گوشت ہاتھیوں پر لاد کر شہر لائے جاتے۔
مرغ بازی کا لکھنؤ والوں کو بڑا شوق تھا۔ لوگ مرغوں کو خاص اہتمام کے ساتھ پالتے اور لڑنا سکھاتے۔ بڑے بڑے آدمی بھی مرغ بغل میں مارے نکلتے، اس کی دھوم حیدرآباد تک پہنچی ہوئی تھی۔ مرغ والوں کو اپنے مرغ کا اس قدر ”وقر“ تھا کہ جان دینے کے لئے تیار ہوجاتے تھے“۔اب آیئے حیدرآباد کے نوابوں کے محلوں کا بھی جائزہ لیجئے۔ موئیدالدین ظفر ”سقوط حیدرآباد“ ناشر تعمیرِملّت، حیدرآباد کے ایک مضمون کے مطابق محلوں یا دیوڑھیوں میں کئی قسم کی عورتیں ہوتیں۔ پہلی قسم جس کو دلہن بیگم کہاجاتا وہ، وہ ہوتیں جن کی شادی عالیشان بارات کے ساتھ نکلی ہو۔ باقی ”منکوحائیں“ ہوتیں جن سے نکاح تو ہوا لیکن بارات نہیں نکلی۔ تیسری قسم ”خواص“ کی ہوتی جو نواب صاحب کو پسند آجاتیں۔ اور ان کو پسند کروانے والو ں کو بھی بڑے نواب کبھی خوب انعام و اکرام یا جائدادیں عطا کردیتے اوراگر کچھ زیادہ ہی پسند آجائے تودلالوں کو نواب، جنگ، یار وغیرہ کا خطاب عطا فرمادیتے۔ چوتھی قسم وہ تھی جو نوابوں کا ناچ گانے یا کسی اور طرح سے دل بہلاتیں۔ اور کیوں نہ بہلائیں کیونکہ بے چارے نواب امورِ سلطنت چلانے کی اتنی ذمہ داریاں اٹھاتے کہ بہت تھک جاتے تھے۔ اُن کی صبح دن میں دو تین بجے ہوتی، تازہ ہونے تک رات ہوجاتی، سازو سرود، شعروشاعری، مجرے و موسیقی وغیرہ کی محفلیں سجتیں۔ چاہے سلطنت اجڑ جائے لیکن تہذیب کو وہ اجڑنے نہیں دیتے اور رات رات بھر ان تہذیبی محفلوں کی سرپرستی فرماتے۔ آج کے نواب یعنی جو دو چار کروڑ کے مالک بن چکے ہیں، یہی کررہے ہیں، انہی کے دم سے آج مندی ہاؤز، بریانی ہاؤز، تھیٹرز اور کلب آباد ہیں۔ جن کے پاس کچھ نہیں ان کے بھی دم سے چبوترے آباد ہیں۔
وہ شادیاں ہوں کہ عیاشیاں، امبانی سے زیادہ شان ہمارے بادشاہ، نواب اور ہمارے آباواجداد دکھا کر جاچکے ہیں، فرق یہی ہے کہ امبانی کی قوم کو آنے والی نسلوں کے مستقبل کی حفاظت کا پورا پورا شعور ہے، لیکن ہمارے نوابوں کو دور دور تک یہ شعور نہیں تھا کہ آنے والی نسلوں کا انجام کیا ہوگا۔ فکر تھی صرف یہ کہ ان کی یا ان کی بیٹیوں کی شادی کس شان سے ہوگی اور ”لوگ کیا کہیں گے“۔
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
واٹس اپ: 9642571721