[]
مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی مجددی قادری
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)
بخشش کا مہینہ ہے، برکت کا مہینہ ہے
رمضان بڑی شان وشوکت کا مہینہ ہے
اس ماہ کے بارے میں سرکارِ دو عالمؐ کا
ارشاد ہے یہ میری امت کا مہینہ ہے
ماہِ رمضان المبارک کی آمد ہے، مسلمانوں میں خوشی کی لہر ہے، مردانِ حق عازمِ عبادت ہیں، عبادتوں کے ذریعہ قربت الٰہی کے متمنی ہیں ۔ ہر طرف استقبالِ رمضان کے جلسے منعقدہورہے ہیں، بے شک رمضان شریف امتِ محمدیہ ؐ کیلئے نعمتِ عظمٰی ہے ۔انسانی فطرت ہے کہ جب کسی شخص کو دینی ودنیوی نعمت ملنے والی ہو تو وہ اس کا منتظر رہتا اور استقبال کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نعمت کی قدر کرنے والوں کو خوب نعمتوں سے نوازتا ہے، اسکا اہتمام واستقبال کرنے والے اجر وثواب کے مستحق ہوتے ہیں ، رمضان المبارک و دیگر عبادتوں کا استقبال واہتمام کرنے والوں کو رحمتِ باری نیکیوں سے مالامال کرتی ہے ۔مثلاً اگر کسی شخص نے جہاد کی خاطر سواریاں خرید لی اور ابھی جہاد میں شریک نہیں ہوا محض اہتمام واستقبال کرنے کی وجہ سے اُسے بہت بڑا اجر ملتا ہے ۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے : ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال الخیل لثلاث لرجل اجر۔۔ الخ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ گھوڑوں کی تین قسمیں ہیں (ایک گھوڑا )کسی مرد کے لیے اجر ہے، (ایک گھوڑا ) کسی مرد کے لیے ستر ہے اور ( ایک گھوڑا ) کسی مرد کے لیے گناہ ہے ،تو وہ گھوڑا جو آدمی کے لیے اجر ہے ،یہ وہ گھوڑا ہے جس کو آدمی نے اللہ کی راہ میں باندھ کررکھا ،پس اس کی رسّی گھاس کے قطعہ میں یا باغ میں لمبی رکھی ہے (یعنی لمبی رسّی کے ساتھ باندھ کر باغ میں چھوڑدی) پس وہ گھوڑا گھاس کے قطعہ سے یا باغ سے لمبی رسّی ہونے کی وجہ سے (وہاں جا کر جو کچھ چرے گا) تو وہ اس شخص کی نیکیوں میں شمار ہوگا،اور اگر اس گھوڑے نے اپنی رسّی کی لمبائی کاٹ دے پھرایک بلندجگہ پر یادو بلند جگہوں پر چڑھے اور وہاں لید کردے تو اس کا وہاں چڑھنا اورلید کرنا بھی اس شخص کی نیکیوں میں شمار ہوگا اور اگر وہ گھوڑاکسی دریا کے پاس سے گزرے اور اس سے پانی پیئے جبکہ اس کے مالک نے ا س کو پانی پلانے کا ارادہ نہ کیا ہو، (تب بھی )یہ اس شخص کی نیکیوں میں شمار ہوگا (یعنی وہ گھوڑا جتنا پانی پئے گا اتنی ہی وہ اس کے مالک کی نیکیاں شمار ہوں گی )اور جس مرد نے اپنے گھوڑے کوفخر اور دکھاوے اور مسلمانوں کی دشمنی کے لیے باندھ کر رکھا تو یہ گھوڑا اس کے لیے گناہ کا باعث ہے ۔ اس حدیث شریف میںیہ بتایا جا رہا ہے کہ گھوڑے کو پانی پلانے چارہ کھلانے اس کی دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے مجاہدکے گناہ معاف ہو جاتے ہیں نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، درجات میں بلندہو تے رہتے ہیں بلکہ گھوڑے کی لید بھی صاف کی جائے تو وہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے ۔ یعنی ابھی وہ میدانِ جہاد جا کر دشمن سے نہ مقابلہ کیا نہ جہاد کیا صرف اس نے جہاد کی تیاری واہتمام کیا تو اس کے نامہ اعمال میں اجر وثواب لکھ دیا جا تا ہے۔
رمضان المبارک کا معاملہ بھی اسی ِطرح ہے ، اگر کسی شخص نے صرف عبادت کا عزم واہتمام کیا تو وہ بھی جنت کا مستحق قرار پائے گا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: جو شخص رمضان کے آنے پر خوش ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدن کو دوزخ کی آگ پر حرام کر دیتا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی مسلمان ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار واستقبال کرتا ہے تو رب کی قربت نصیب ہوتی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: عن ابی ھریرۃ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: سبعۃ یظلھم اللہ في ظلہ یوم لاظل الا ظلہ: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات اشخاص وہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سایہ میں رکھے گا جب اس کی رحمت کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا (۱)عادل بادشاہ (۲) وہ جوان جو اللہ کی عبادت میں جوانی گزارے (۳) وہ شخص جس کا دل مسجد سے نکلنے کے بعد بھی مسجد میں اٹکا رہے حتیٰ کہ مسجد میں لوٹ آئے (۴)وہ دو شخص جو اللہ کیلئے محبت کریں، جمع ہوں تواسی محبت پر اور جدا ہوں تو اسی پر (۵) وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کویاد کرے تو اس کی آنکھیں بہیں (۶) وہ شخص جسے خاندانی حسین عورت بلائے تو وہ کہے میں اللہ سے ڈرتا ہوں (۷) وہ شخص جو چھپا کر خیرات کرے حتیٰ کہ اس کا بایا ں ہاتھ نہ جانے کہ داہنا ہاتھ کیا دے رہا ہے (مسلم، بخاری ) اس حدیث شریف سے واضح ہے جس نے فجر کی نماز کے بعد ظھر کا انتظار کیا، ظھر سے عصر کا منتظر رہا، عصر سے مغرب کا منتظر رہا، مغرب سے عشاء کا منتظر رہا اس کا دل مسجد سے یک بعد دیگر نمازوں کیلئے جڑا ہوا ہے گویا وہ ہر نماز کے انتظار واستقبال میں ہے تو وہ محشر میں رب کریم کے رحمت کے سائے میں ہوگا جس دن رحمت کے سایہ کے سوا کسی کا سایہ نہیں ہوگا، رحمتِ خداوندی اس بندہ کو اپنی خصوصی سایہ رحمت میںلے لیتی ہے اور یہ شرف ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔
عَنْ سلمان رضی اللہ عنہ قَال خَطَبَنَا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في آخرِ یومٍ مِنْ شَعْبَانَ فقال یا ایھا الناسُ قَدْ اظلکُمْ شَھْرٌ عَظِیْمٌ مُبَارکٌ۔۔۔۔ إلی آخرہ (صحیح ابن خزیمہ: ۱۸۸۷، شعب الایمان:۳۶۰۸)حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شعبان کے آخری دن ہمارے درمیان خطبہ ارشاد فرمایا: کہا کہ اے لوگو! تم پر ایک عظیم برکت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، اس میں ایک رات (شب قدر) ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض کیا اور اس کی رات میں قیام (نماز تراویح) کو نفل قرار دیا جس نے اس مہینہ میں کوئی نفل نیکی کی وہ اس مہینہ کے علاوہ دوسرے مہینہ میں فرض ادا کرنے کے برابر ہے اور جس نے اس مہینہ میں کوئی فرض ادا کیا وہ اس مہینہ کے علاوہ دوسرے مہینہ میں ستر فرض ادا کرنے کے مثل ہے، یہ صبر کرنے کا مہینہ ہے، صبر کا بدلہ جنت ہے یہ غم خواری کا مہینہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے جس کسی نے روزہ دار کو افطار کرایا تو یہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ سے خلاصی کا سبب ہوگا اور روزہ دار کے ثواب کے مثل اس کو ثواب ملے گا لیکن روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی، صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے؟ تو آپؐ نے فرمایا: یہ ثواب تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کو بھی عطا فرمائے گا جو ایک کھجور سے یا ایک گھونٹ پانی سے یا دودھ سے کسی روزہ دار کو افطار کرادے۔
یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس کا پہلا دہا رحمت کا ہے، اوردوسرا دہا مغفرت کا ہے اور تیسرا دہا دوزخ سے آزادی کا ہے، جس نے اس مہینہ میں اپنے غلام (یا نوکر) کے کام میں تخفیف کی اللہ اس کی مغفرت فرمادے گا ار اس کو دوزخ سے آزاد کردے گا، اس مہینہ میں چار کام بہ کثرت کیا کرو، دو کام تو ایسے ہیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرسکوگے اور دو کام ایسے ہیں جن کے بغیر تمہارے لئے کوئی چارہ کار نہیں، وہ دو کام جس سے تم اپنے رب کو راضی کرسکوگے وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسرے دو کام یہ ہیں کہ ایک تو جنت طلب کرو اور دوسرے جہنم سے پناہ مانگو اور جس کسی نے روزہ دار کو پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوضِ کوثر سے ایسا پانی پلائیگا جس سے وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا حتی کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے۔
حدیث شریف سے واضح ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ شعبان ہی سے رمضان المبارک کا استقبال کرتے ہوئے اس کی اہمیت و فضیلت بیان فرمائی، اور یہ بات حق ہے کہ جب شعبان المعظم کا سورج ڈوب جاتا ہے اور رمضان المبارک کا چاند نکل آتا ہے تو اپنے ساتھ اَن گنت رحمتیں وبرکتیں لے کر آتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے:
عَنْ ابي ھریرۃ رضی اللہ عنہ یقول: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اذا دخل شھر رمضان فتحت ابواب الجنۃ، و غُلِّقَتْ ابوابُ جھنمَ، و سُلْسِلتِ الشیاطین۔ (بخاری و مسلم) حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں، شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔
نبی کریم ﷺ اپنے خطبہ میں رمضان المبارک کی اہمیت بتاتے ہوئے اس بات کی طرف رغبت دلاتے کہ اس مبارک ماہ میں عبادتوں کا اہتمام کیا جائے کیونکہ ایک لمحہ بھی عبادت ِ الٰہی سے غافل رہنا خیر کثیر سے محرومی کا سبب ہے، اگر کسی مسلمان سے اس میں کوتا ہی ہو جائے اور عبادتیں ترک ہو جائے پھر بندہِ مومن اس کی پابجائی کیلئے زندگی تمام عبادت کر لے تو وہ ثواب وانعام حاصل نہیں ہوسکتا جو اسے رمضان میں مل سکتا تھا۔
رمضان کی فضیلت دوسرے مہینوں پر ایسی ہے جیسے اللہ تعالے کی فضیلت بندوں پر اور شعبان کی فضیلت دوسرے مہینوں پر ایسی ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت دوسرے پیغمبروں پر۔
حدیث: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمائے ہیں کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شعبان میں پانچ حروف ہیں، ہر حرف کے بدلہ مسلمان کو ایک ایک چیز عطا ہوئی ہے، شین سے شرف و شفاعت، عین سے عزّت و کرامت اور ب سے بر(نیکی) الف سے الفت (محبت) اور نون سے (نور) ۔
مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ اس مہینہ کی قدر کر تا ہے، اور عبادتوں کو ترک کرنے سے محفوظ رہتا ہے، وہ جانتا ہے کہ خدا کی ناراضگی مصائب و آلام لاتی ہے۔ اسی لیے سچے دل سے تو بہ کر کے نماز‘ روزہ‘ تراویح اور دیگر عبادات اور کارِ خیر سے خدائے تعالیٰ کو خوش کرتا ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا کی اطاعت سے رزق کم ہوتا ہے ، یہ خیال بے بنیاد وباطل ہے بلکہ خدا کی اطاعت اور طلب مغفرت سے رزق میں برکت ہوتی ہے۔شانِ خدائی تو یہ ہے کہ اگر نہ بھی مانگیں تب بھی وہ دیتا ہے بلکہ اگر تم یہ کہو کہ الٰہی روٹی مت دے، تب بھی یہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ جو کچھ قسمت میں ہے وہ پہنچ کر رہتا ہے، اگر قسمت میں جو کچھ ہے نہ لیں گے تو جبراً دیا جائیگا۔ بزرگو! وہ رمضان المبارک کا مہینہ ہی ہے جو مسلمانوں کو فرشتہ صفت بنا دیتا ہے، اس میں مسلمانوں کی روزی زیادہ کر دی جاتی ہے، جو کچھ کھائے اس کا حساب نہیں، کھانا پینا سب طاعت میں شمار ہوتا ہے، چھوٹی عبادت پر بڑا ثواب ملتا ہے، فرشتے دعاء مغفرت کر تے ہیں، شیاطین قید میں جکڑ دیے جاتے ہیں، رحمت کا دریا بہہ رہا ہوتا ہے، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، ہر روز کروڑہا اہل ایمان کی مغفرت ہو تی ہے، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ لازم ہے کہ رمضان المبارک کا استقبال کرے اور ماہِ رمضان میں نماز، روزہ، صدقہ، تلاوت قرآن، نماز تراویح، درود و سلام و دیگر عباداتِ الٰہی کا خاص اہتمام کریں، کسی بھی وقت یادِ خدا سے غافل نہ رہیں، اگر بلا عذرِ شرعی رمضان المبارک کا ایک روزہ بھی چھوٹ جائے تو اس کا کوئی بدل نہیں ہے۔
حدیث شریف میں ہے: قال من افطر یومًا مِن رمضان مِن غیر رخصۃ ولا مَرَضٍ ولَمْ یَقضہ صوم الدھر کلہ و اِن صامَۃ۔ (ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: جو شخص ’’قصداً‘‘ بلاکسی شرعی رخصت و مرض (بیماری) کے ایک دن بھی رمضان کا روزہ چھوڑ دے اور غیر رمضان میں ساری عمر روزہ رکھ لے تو بھی چھوٹے ہوئے رمضان کے روزہ کا وہ بدل نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں استقبالِ رمضان کے ساتھ رمضان المبارک میں عبادتوں کی توفیقِ خاص عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔
٭٭٭