[]
ہندوستان کے مسلمانوں کو آج سے چالیس سال پرانی تاریخ پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔1984ء کے مخالف سکھ فسادات (قتلِ عام) اور2002ء میں گجرات میں ہوئے مسلمانوں کے قتل عام کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ایک اتفاقی حادثہ ایک طبقہ کے قتل اور ان کی املاک کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
ہندوستان کے بڑے بڑے صحافیوں ‘ تھنک ٹینک‘ مفکرین نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں اور خصوصاً شمالی ہندوستان کی ہندی پٹی میں مسلمان ایک بہت ہی منصوبہ بند سازش کا شکار ہونے جارہے ہیں۔ رفتہ رفتہ مساجد کو مسمار کیا جارہا ہے۔
ملک کی عدلیہ مسلمانوں کی مدد کرنے یا ان کو انصاف فراہم کرنے میں یکسر ناکام ہوگئی ہے اور حکومتِ وقت کے فیصلوں پر اپنی مہر ثبت کررہی ہے۔ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ ان کے عائلی قوانین پر حملہ کیا جارہا ہے ۔ ملک کا سیکولر کردار تقریباً ختم ہوچکا ہے اور دستور کے PREAMBLE سے لفظ سیکولر اور سوشلسٹ کو حذف کردیا گیا ہے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت PLAQUE ہے جو پارلیمان کے دروازے پر آویزاں ہے۔
مفکرین کے مطابق ووٹوں کی تقسیم ہندو ۔ مسلم کی بنیاد پر ہوگی اور یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ملک میںمسلمانوں کی آبادی کا تناسب کتنا ہے ۔ شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کا ٹرین یا بس میں سفر کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ کس طرح ریلوے پولیس فورس کے ایک کانسٹبل نے تین مسلمانوں کو اپنی سروس رائفل کا نشانہ بناکر شہید کردیا تھااور ان کا قصور بس اتنا تھا کہ ان کے چہرے پر داڑھی تھی یا وہ مسلمان تھے۔
یہ سب جوان ‘ جو پولیس ‘ سی آرپی ایف ‘ بارڈر سیکوریٹی فورس ‘ وغیرہ کے ملازم ہیں دراصل اسی درسگاہ کے طالب ہیں جس کو آر۔ایس ۔ایس شاکھا کہا جاتا ہے جہاں نچلی اقوام کے بچوں کے ذہن میں مخالف مسلم اور مخالف اسلام زہر بھرا جاتا ہے ۔ ایک مفکر کے مطابق شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کے وہی حالات ہیں جو عربوں کے اسپین میں ان کے اقتدار کے آخری دنوں میں اوریہودیوں کے نازی جرمنی میں تھے۔
چیف جسٹس آف انڈیا مسٹر چندرچوڑ نے بھی اپنا رنگ دکھادیا وہ زعفرانی رنگ میں رنگ دیئے گئے۔ حکومت سے ذہنی مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی بھی شفاف مقدمہ میں بھی عبوری احکامات جاری نہیں کررہے ہیں۔ گیان واپی مسجد کیس میں جو عبوری آرڈر پاس کیا گیا‘ بالکل غیر قانونی ہے اور وہ (PLACES OF WORSHIP ACT.) کی صریح مخالفت میں ہے جس میں صاف اور واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جو بھی عبادت کا مقام(مندر۔ مسجد۔ گرجا۔ گردوارہ) 15؍اگست1947ء کی تاریخ کو تھا‘ اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ لیکن صریح قانونی موقف کے باوجود بھی ضلع عدالتیں‘ ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ اس حقیقت کو تسلیم کرنے تیار نہیں گویا دھارمک جذبات ملکی قانون سے بالاترہیں۔
مسلمانوں کو بہت ہی محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے نوجوان لڑکوں کو ہدایت کرنے کی ضرورت ہے کہ کبھی بھی مشتعل ہوکر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس کی وجہ سے تمام مسلم کسی مصیبت میں نہ پڑجائیں۔ یہ بات دیکھی گئی ہے کہ آئے دن یوپی ‘ بہار مدھیہ پردیش ‘ بہار اور راجستھان میں مندروں میں بھگوان کی مورتیں توڑی جارہی ہیں تاکہ ایسے جرم کا الزام کسی مسلمان کے سرڈالا جائے جس سے فساد بھڑک سکے۔ لیکن تاحال پولیس کی مستعدی کی وجہ سے جو بھی اشرار پکڑے گئے ان کا تعلق ہندو طبقہ سے تھا اور ان پر معمولی دفعات کے تحت مقدمات چلائے گئے۔ کسی پر بھی UAPA لاگو نہیں کیا گیا جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت ایسے اشرار کی پشت پناہی کررہی ہے۔
شہرِ حیدرآباد کے مسلمان ان خطرات سے بالکل بے خبر نظر آتے ہیں اور انہیں قوم پر آنے والی تباہیوں کی فکر ہی نہیں۔ انہیں تو صرف لاکھوں روپیوں کی دعوتوں کے اہتمام اور فضول خرچیوں سے فرصت ہی نہیں ہے۔ دعوتوں کے بارے میں ایکCompetitive spirit نظر آنے لگی ہے اور حیدرآباد میں وہی سب کچھ دکھائی دے رہا ہے جو سقوطِ بغداد سے پہلے تھا۔ ہزاروں لاکھوں روپیوں کی شروانیاں صرف ایک دن کے استعمال کے لئے خریدی جاتی ہیں۔
خلیجی ممالک میں رہنے والے دولت مند حضرات نے اپنے لاڈلوں کے ہاتھوں میں ایک دوکروڑ روپیہ مالیتی موٹر کاریں دے رکھی ہیں کہ وہ فراٹے بھرتے ہوئے شہر کی سڑکوں پر کارچلائیں اور کسی کو بھی ٹکر دے کر فرارہوجائیں۔ حیدرآباد کے PUBS اور حقہ پارلرس میں مسلم نوجوان اور لڑکیاں نظر آتی ہیں۔
صرف شان و شوکت ‘ آرائش و زیبائش ‘ فضول خرچیاں‘ اللہ پاک کی ناراضگی خرید رہے ہیں اور اپنا شمار شیطان کے بھائیوں میں کروارہے ہیں۔ یہ سب تباہیوں کا نقطہ آغاز ہے۔ وہ صورت جو شمالی ہند میں ہے ‘ وہ تلنگانہ میں بھی ہوسکتی ہے۔ اگر شہرحیدرآباد میں بھی ایسی صورت پیدا ہو تو حالات کا سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔
علمائے کرام ‘ بالکل خاموش ہیں۔ ان کی جانب سے کسی بھی اخبار میں کوئی بیان جاری نہیں کیا جاتا۔ ایک اخبار کے دینی صفحات صرف عرس اور بزرگوں کی سوانحِ حیات کی حد تک ہی محدود ہیں۔ کسی میں یہ شعور نہیں کہ مسلم نوجوانوں کو دینی گمراہی ‘ شراب اور گانجے کے استعمال سے روکیں۔ سود ایک جان لیوا بیماری بن کر خصوصاً پرانے شہر میں پھیل رہا ہے۔
اس برائی کو روکنے کے لئے کوئی آوازنہیں اٹھتی۔ غریبوں کے خاندان سود کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ہمیں یہاں تک خبریں پہنچی ہیں کہ حیدرآباد کا مارواڑی طبقہ گمراہ کن لیکن ظاہری طور پر طاقتور مسلم نوجوانوں کو تین فیصد فی ماہ کی شرح سے رقومات دیتے ہیں اور پھر یہی پیسہ غریبوں‘ ٹھیلہ بنڈی رانوں‘ چھوٹے تاجروں کو بھاری شرح سود یہاں تک کہ آٹھ ‘ دس فیصد ماہانہ پر دیتے ہیں۔ یہ لعنت پرانے شہر کے ہر محلے میں ایک ناسور کی طرح پھیل گئی ہے۔
ذمہ داران قوم ‘ مسلم سماج کی اس لعنت سے بالکل بے خبر نظر آتے ہیں اور عملی طورپر اس برائی کو دورکرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کرتے۔ یہ سب تباہیوں کی علامات ہیں۔ اللہ نہ کرے اگر حیدرآباد بھی فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آگیا تو پھر کیا ہوگا۔
اس بات کو بہت ہی سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔