[]
نئی دہلی: وزیراعظم نریندرمودی نے آج پیش قیاسی کی کہ بی جے پی یقینی طور پر 370 نشستیں حاصل کرے گی اور لوک سبھا انتخابات میں حکمراں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی آے) 400 نشستوں کے پار ہوگا۔
انہوں نے کانگریس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کی دکان بند ہونے کے قریب ہے۔ صدر جمہوریہ کے خطبہ پر لوک سبھا میں تحریک تشکر مباحث میں حصہ لیتے ہوئے اپنے تقریبا 100 منٹ طویل جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت تیسری میعاد میں ”بہت بڑے“ فیصلے کرے گی اور ہندوستان کے لئے آئندہ ایک ہزار سال کے لئے ایک مضبوط بنیاد رکھے گی۔ جبکہ اپوزیشن نے کم تعداد میں رہنے کا ذہن بنالیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ارکان انتخابات سے پہلے پارلیمنٹ آخر سیشن میں بھی مباحث کے دوران کوئی تعمیری تجاویز پیش کرنے میں ناکام رہے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو خارج کرتے ہوئے وزیٹرس گیلری میں بھیج دیا جائے گا۔ انہوں نے سنا ہے کہ چند ارکان اپنے پارلیمانی حلقہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں جبکہ بعض راجیہ سبھا منتقل ہونا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کانگریس کئی دہائیوں تک اقتدار میں تھی اور اب اس نے کئی دہائیوں تک اپوزیشن میں رہنے کا عہد کرلیا ہے۔ مودی نے تیسری میعاد میں بھی اقتدار برقرار رکھنے کا اعتماد ظاہر کیا اور اپنی تقریر کے زیادہ ترحصہ میں کانگریس پر تنقید کرتے رہے۔
انہوں نے راہول گاندھی پر طنز کرتے ہوئے جو فی الحال اپنی پارٹی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا کی قیادت کررہے ہیں اور جو اکثر بی جے پی کی مبینہ ”نفرت کی سیاست“ کے جواب میں کانگریس کی ”محبت کی دکان“ کھولنے کا حوالہ دیتے رہتے ہیں، کہا کہ کانگریس کی دکان بند ہونے کے قریب ہے کیونکہ وہ ایک ہی چیز بار بار لانچ کرنا چاہتی ہے۔
جب مودی نے کئی مسائل پر قدآور کانگریس قائدین جواہرلال نہرو اور اندراگاندھی پر تنقید کی تو اپوزیشن جماعت کے ارکان نے بار بار احتجاج کیا۔موجودہ لوک سبھا میں شاید اپنی آخری تقریر میں مودی نے کہا کہ کانگریس نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دیگر اپوزیشن جماعتوں اور ملک کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
کانگریس نے ”کینسل کلچر“ اختیار کیا تھا کیونکہ وہ صرف انہیں نشانہ بنانے کی خاطر ملک کو حاصل ہونے والی ہر کامیابی کو منسوخ کردینا چاہتے ہیں۔ مودی نے اپنی حکومت کے خلاف اس الزام پر کے وہ اپوزیشن قائدین کو نشانہ بنانے تحقیقاتی ایجنسیوں پر بیجا استعمال کررہی ہے کہا کہ کرپشن کے خلاف ان کی مہم جاری رہے گی۔
تحقیقاتی ایجنسیاں آزادانہ طور پر کام کرتی ہیں اور دستور نے انہیں یہی کام تفویض کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتیں ہی تحقیقاتی ایجنسیوں کے کام کاج پر فیصلہ صادر کرسکتی ہیں۔