[]
حمیدعادل
پچھلے دنوں نتیش کمار نے ’’دَل ‘‘ بدلنے کا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے لوگوں کو’’ آیا کمار، گیا کمار‘‘ اور ’’ پلٹو چاچا‘‘ کہنے پر مجبور کردیا… یہ وہی نتیش کمار ہیں جنہوں نے بی جے پی چھوڑ کر بڑے پر جوش انداز میں کہا تھا ’’ مرجائیں گے لیکن دوبارہ بی جے پی میں شامل نہیں ہوں گے‘‘ بی جے پی نے بھی کہہ ڈالا ’’ نتیش بابو کے لیے بی جے پی کے دروازے بند ہوچکے ہیں ۔‘‘نتیش کمار پرمرنے سے بھی زیادہ جانے کیا ایسی مصیبت آن پڑی کہ وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے اور بی جے پی نے بھی چپکے چپکے دروازے کھول دیا…امت شاہ سے کوئی پوچھیں تو وہ یہی کہیں گے ’’ کیا کریں بابو ، میرا تو دل ہی کچھ ایسا ہے ۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ رشتوں کو لباس کی طرح بدلنے والے کسی کے دوست نہیں ہوتے…ٹھیک اسی طرح سیاسی جماعتو ںکو لبا س کی طرح بدلنے والے بھی کسی کے دوست نہیں ہوسکتے ۔دراصل جو نیتاوقتاً فوقتاً دَل بدلتے ہیں، ان کے دِل اقتدار کی ہوس سے بھرپور ہوا کرتے ہیں …خواجہ حیدرعلی آتش نے کہا تھا:بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے لیکن موجودہ دور کے نیتاؤں کے وقتاً فوقتاً رنگ بدلنے کے رجحان کو دیکھ کر کہنا پڑرہا ہے :
بدلتا ہے رنگ نیتا کیسے کیسے ؟
جو اپنے کسی موقف پر اٹل نہیں ہوتے ،انہیں تھالی کے بینگن یا پھر بے پیندے کے لوٹے کہا جاتا ہے اور اس طرح کی خصلت نیتاؤں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔جب ذکر تھالی کے بینگن کا نکل پڑا ہے تو ہمیںجس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں والی کہاوت یاد آرہی ہے اور یاد آرہاہے شوبھا ککل کا طنزسے بھرپورایک شعر:
اسی میں چھید کرتے ہیں کہ جس تھالی میں کھاتے ہیں
بدل سکتی نہیں عادت کبھی ایسے کمینوں کی
طنزومزاح کے معروف شاعر خالد عرفان نے بینگن اور تھالی کا کیا خوب استعمال کیا ہے:
اس کا بھی نہ تھامیری طرح کوئی بھروسہ
بینگن کی طرح میں ہوں، وہ تھالی کی طرح تھی
جہاں بیچارہ تھالی کا بینگن اپنی بناوٹ اور چکنی جلد کی وجہ سے لڑھکتا رہتاہے وہیں نام نہادنیتا بھی عوام کا پیسہ کھا کھا کر اس قدر چکنے ہوجاتے ہیں یا ان پر اس قدر چربی چڑھ جاتی ہے کہ ان کا چکنا وجود سنبھالے نہیں سنبھلتااور وہ تھالی کے بینگن بن کر ایک تھالی ( ایک پارٹی سے) دوسری تھالی ( دوسری پارٹی) میں لڑھکتے رہتے ہیں۔’’دل بدلو‘‘نیتاعموماً انتخابات سے قبل خوب دَل بدلتے ہیں ، جب کہ کچھ ایسے بھی بے شرم ہوتے ہیں جو جس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتتے ہیںاسی سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں کیونکہ وہ پارٹی اقتدار سے بیدخل ہوچکی ہوتی ہے۔انتخابات سے پہلے ایک دوسرے پر کیچڑا چھالنے والے انتخابات کے بعد باہوں میں باہیں ڈالے نہایت بے شرمی سے ’’ یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے، توڑیں گے دم مگر تیرا ساتھ نہ چھوڑیں گے‘‘ کا نغمہ گنگناتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
ہم نے لفظ ’’ سیاست‘‘ کانہایت باریک بینی سے پوسٹ مارٹم کیا تو پوسٹ مارٹم رپورٹ کچھ اس طرح تیار ہوئی:
’’ لفظ سیاست‘‘ کا پہلا حصہ ’’ سیا‘‘ دراصل ’’ سیاہ‘‘ ہے اور سیاہ کے لفظی معنی جیسا کہ سبھی جانتے ہیں ’’کالا‘‘ کے ہیں ، جب کہ لفظ ’’ سیاست ‘‘ کا دوسرا حصہ ’’ ست‘‘ ہے اور ’’ ست‘‘ کے معنی ’’ عرق‘‘ ہیں ۔ دونوں کے معنوں کو اگر ہم جوڑدیں تو مفہوم برآمد ہوا’’ کالاعرق‘‘ اور جو کوئی یہ ’’ کالا عرق ‘‘پیئے گا، کالی کرتوتیں یا پھرسیاہ کارنامے انجام دینا عموماً اپنا فرض ہی سمجھے گا ۔ لہٰذاجو شرفا سیاست کی اس سیاہ کاری سے واقف ہوجاتے ہیں پھروہ سیاسی لطیفے سنانے سے تک گریز کرتے ہیں۔
اداکاری اور سیاست کوچولی دامن کا بلکہ موسم گرما اور ٹوپی کا ساتھ کہا جاسکتا ہے ، جتنا اچھا اداکار ہوتا ہے وہ اتنا ہی اچھا سیاست داں بھی کہلاتا ہے ۔غالباً اسی بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے بالی ووڈ کے کئی فلمی ستاروں نے سیاسی میدان میں قسمت آزمائی … کچھ کامیاب ہوئے تو بیشتر ناکام کہلائے ۔ایک دراز قدر اداکار ایسے بھی ہیں جنہوں نے جیسے ہی سیاست میں داخلہ لیا ان کا قدخود بخود گھٹ گیا اور جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے سیاست سے توبہ کرلی اور پھر پلٹ کر کسی سیاسی جماعت کی طرف نہیں دیکھا۔
کہتے ہیں کہ جب دو چوروں کے درمیان لڑائی شروع ہوتی ہے تووہ ایک دوسرے کی پول کھولنے لگتے ہیں،جس کے نتیجے میں سچائی خود بخودسامنے آنے لگتی ہے، ایسے ہی نظارے آج کل سیاسی چوروں کے تعلق سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔طنزومزاح کے معروف شاعر محمد حمایت اللہ نے سیاسی قائدین کی مفاد پرستی کا بڑے اچھوتے انداز میں تذکرہ کیا ہے:
الٰہی یہ لیڈر سمجھ پا گئے کیا
شرافت کے رستے انہیں بھا گئے کیا
جدھر دیکھئے حق میں اردو کے لکچر
الیکشن کے دن پھر قریب آگئے کیا
رکن اسمبلی اور رکن پارلیمان یا پھر وزیر تو دور کی بات ہے،محض کونسلر جن کے ہاں انتخابات سے قبل معمولی سی کھٹارا موٹر سائیکل ہوتی ہے ، انتخابات کے بعد وہ قیمتی چمچماتی کار میں گھومنے لگتے ہیں ۔احمد علوی نے سیاست دانوں کے ان ہی شاہانہ ٹھاٹ باٹ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہا ہے :
پی کر لہو عوام کا ہوتے ہیں سرخ رو
بے جان ساری قوم ہے لیڈر میں جان ہے
آساں ہے پتا رہبرانِ ملک و قوم کا
بستی میں صرف ایک ہی پختہ مکان ہے
ہمارے سیاست داں ملک کی ترقی کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں اور خود ترقی کی منزلیں طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ انتخابات سے قبل ’’ اچھے دن آئیں گے‘‘ کا نعرہ مارتے ہیں اور انتخابات کے بعدسادہ لوح عوام کو پتا چلتا ہے کہ کس کے اچھے دنوں کے تعلق سے کہا گیا تھا ۔ جبکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر معاملے اور ہر شعبے میں ناانصافی اور بے قاعدگی ہے ۔ہم لاکھ ترقی کا راگ الاپے لیکن دیگر ممالک کی بہ نسبت ہم بہت پیچھے ہیں:
مختلف ممالک کے شہری ایک جگہ جمع تھے، جس میںایک ہندوستانی شہری بھی شامل تھا۔ برطانوی شہری نے بڑی شان سے کہا : ہمارے ملک میں پوسٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی سہولت ہے۔
جرمن شہری پاس ہی کھڑا تھا، اس نے بھی شان بگھاری : ہمارے ملک میں ترقی کا یہ عالم ہے کہ انٹرنیٹ سے آن لائن ووٹ کاسٹ ہوجاتا ہے۔
امریکی نے دونوں کی باتیں سنیں تواترا کر کہا: ہم اتنی ترقی کرچکے ہیں کہ موبائیل میسیج سے ہی ووٹ ڈال دیتے ہیں۔
اب باری تھی ہندوستانی کی، اس نے شان بے نیازی سے کہا: ہم لوگ گھر پر ہی بیٹھے رہتے ہیں اور ہمارا ووٹ کوئی اورکاسٹ کرجاتا ہے،یہ ہوتی ہے اصلی ترقی …
انتخابی مہم کے دوران نعرے بازی اور جملے بازی تو لطیفوں میں تبدیل ہوکر رہ جاتی ہے،یعنی لطیفوں پر بھی ہمارے نام نہاد سیاست دانوں نے قبضہ جما لیا ہے جبکہ عام آدمی کے پاس مسکرانے کا ذریعہ محض لطیفہ بن کر رہ گیاہے۔جی ہاں!یہ کوئی لطیفہ نہیں سچائی ہے… لیکن تعجب تویہ دیکھ کر ہوتاہے کہ نیتاؤں سی خود غرضی عام آدمی میں بھی سرائیت کرگئی ہے۔ اس پس منظر میں شادؔ عظیم آبادی نے کیا خوب کہا ہے:
خود غرض دنیا کی حالت قابل عبرت تھی شادؔ
لطف ملنے کا نہ ا پنے میں نہ بیگانے میں تھا
آج ہر سو خود غرضی اس قدر چھاگئی ہے کہ ہم کب خود بخود ، خود غرض بن جائیںکچھ کہانہیں جاسکتا۔اس خیال کو حسرت موہانی نے کچھ اس طرح پیش کیا ہے :
مرا عشق بھی خود غرض ہوچلا ہے
ترے حسن کو بے وفا کہتے کہتے
ہندوستانی سیاست میں ایسی بے شمار مثالیں بھری پڑی ہیں کہ انہوں نے حیدرآبادی کہاوت ’’ جدھر ہری ادھر چری‘‘ کے مصداق جماعتیں بدلیں اور بار بار بدلیں ،گھوڑے خاں کو تودَل بدلنے میں ید طولیٰ حاصل ہے ۔پہلے تو انہوں نے خود اپنی سیاسی دکان کھولی، لیکن جب ان کی سیاسی دکان نہیں چمکی تو انہوں نے برسر اقتدار جماعت میں چھلانگ لگا دی اور زرد رنگ کے لباس میں نظر آنے لگے پھر کچھ سال کا وقفہ گزرا تو ہم نے انہیںزعفرانی رنگ کی شرٹ پہنے دیکھا، کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ انہیں سرتا پاسفید لباس میں دیکھاگیا، پھر کچھ مہینوں بعد ہم نے دیکھا کہ لباس تو ان کا سفید ہی ہے لیکن انہوں نے گلے میں گلابی رنگ کاجھالر ڈال رکھا ہے ۔اس گلابی رنگ کے جھالر کو دیکھتے ہی ہم تاڑ گئے کہ وہ گلابی رنگ کاسہارا لے کر دراصل اپنی زندگی کو گلابی بنانا چاہتے ہیں ۔ گھوڑے خاں صرف اسی پارٹی کوپارٹی مانتے ہیں جسے اقتدار نصیب ہوتا ہے ،اس کے باوجود نہ وہ اردو اکیڈیمی کے صدر بنے، نہ حج ہاوز میں انہیں جگہ ملی اور نہ ہی اقلیتی مالیتی کارپوریشن کا انہیں کوئی اہم عہدہ دیا گیا اور نہ ہی کسی دیگر عہدے پرہی وہ فائز ہوسکے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ’’ دَل بدلو‘‘ نیتاؤں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جانا چاہیے۔
کچھ تو نیتا دَل بدلتے ہیں اور کچھ خوددَل اتنی بار ٹوٹتا بنتا ہے کہ ’’ ایک دِل کے ٹکڑے ہزار ہوئے ‘‘ کی بجائے ’’ ایک ’’ دَل‘‘ کے ٹکڑے ہزار ہوئے ‘‘ کہنا پڑتا ہے ۔ جی ہاں ! ہمارا اشارہ جنتا دل کی سمت ہے جو اتنی بار ٹوٹا اور بنا ہے کہ وہ اس کا حصہ ’’ جنتا دل یونائٹیڈ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے ۔پارٹی کے آگے ’’ یونائٹیڈ‘‘ لکھنے کی وجہ تسمیہ غالباً یہی ہے کہ اس لفظ کے فیوض و برکات کی بدولت کم از کم اب تو یہ پارٹی متحد رہ سکے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی دِل بدلنا جتنا مشکل کام ہے، اتنا ہی آسان کام دَل بدلنا ہے ،دِل بدلنے کے لیے جیب سے لاکھوں روپئے نکل جاتے ہیں جبکہ دَل بدلنے میں کوئی خرچ نہیں آتا، الٹے لاکھوں کروڑوں روپئے جیب میں آجاتے ہیں ۔ وہ نیتا ہی کیا جو وقت اور حالات کی مناسبت سے اپنا رنگ نہ بدلے،نیتا وہی جوگرگٹ یا پھر کرکٹ کی طرح رنگ بدلے۔سنا ہے کہ ’’دل بدلو‘‘ نیتاؤںکے پہلے دِل بدلتے ہیں اور پھر وہ دَل بدلتے ہیں …قصہ مختصر یہ کہ زیرو زبر کے اس گھناؤنے کھیل کے ذریعے نیتا ،سیاسی اقدار کو زیروزبر(تہس نہس )کرتے رہتے ہیں ۔
جب ہم نے اپنا زیر نظر مضمو ن چمن بیگ کو سنایا تو انہوں نے دانشورانہ انداز میں کہا:مضمون تو خوب ہے لیکن اگر تم اجازت دو تو میں کچھ کہنا چاہتا ہوں؟ہم نے کہا: ضرور کیوں نہیں؟ تو چمن اترا کرفرمانے لگے:
’’تم نے اپنے مضمون میں نیتاؤں کے دِل اور دَل کے تعلق سے لکھا ہے اور خوب لکھا ہے لیکن میںیہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ نیتا جو وقتا ً فوقتاً’’ دَل‘‘ بدلتے ہیں کیااُن کے سینوں میں ’’دِل‘‘نام کی کوئی چیز ہوتی بھی ہے؟‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰