مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم!

[]

غلام مصطفےٰ نعیمی

قریب دس سال پہلے کی بات ہے جامع مسجد دلّی کے سامنے واقع سبھاش پارک میں میٹرو کی زیر زمین کھدائی میں اکبری مسجد کے آثار کی بازیافت ہوئی۔مسجد کی تعمیر اور شہادت پر تاریخی کتب اور ماہرین آثار قدیمہ کی شہادتیں موجود تھیں۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں یہ مسجد مجاہدین کا مرکز ہوا کرتی تھی جس سے خائف ہوکر انگریزوں نے اسے شہید کرکے ایڈورڈ پارک بنا دیا تھا۔ڈیڑھ سو سال کی روپوشی کے بعد مسجد کی برآمدگی سے دلّی میں جشن کا سماں تھا۔جامع مسجد کے رکن اسمبلی شعیب اقبال کی قیادت میں دلّی والوں نے مسجد کی بنیاد پر ایک ہی دن میں محراب اور ملحقہ دیواریں کھڑی کردیں۔صفیں بچھا دی گئیں اور نمازوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔اس وقت دلی اور مرکز دونوں جگہ کانگریس کی حکومت قائم تھی۔تاریخی شواہد اتنے مضبوط تھے کہ کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی لیکن وہ سیکولر حکومت ہی کیا جو مسلمانوں کو پریشان نہ کرے، اچانک سے ایک گمنام تنظیم کے ذریعے یہ دعوی کرایا گیا کہ مذکورہ آثار پانڈو مندر کے ہیں، جسے مسلمان زبردستی مسجد بتا رہے ہیں۔حالانکہ یہ ایسا مضحکہ خیز اور بے بنیاد دعوی تھا کہ جسے اول نگاہ میں خارج کیا جانا اور عرضی گزار پر جرمانہ عائد کرنا تھا لیکن سیکولر حکومتوں کا اصلی چہرہ ایسے ہی مواقع پر سامنے آتا ہے، پہلی ہی شنوائی میں اکبری مسجد میں نماز وتعمیر پر پابندی لگا دی گئی۔مسجد کے وجود پر سر سید کی آثار الصنادید جیسی کئی تاریخی کتابیں شاہد تھیں اور مندر کے وجود پر صرف زبانی دعوی، اتنے کمزور کیس کے باوجود دس سال سے اکبری مسجد انصاف کی راہ دیکھ رہی ہے مگر ابھی تک مسجد کو تاریخ پہ تاریخ مل رہی ہے۔دس سال پہلے سیکولر حکومت نے جو کھیل شروع کیا تھا اب کمیونل حکومت کے دور میں وہ کھیل اپنے شباب پر ہے جہاں ہر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی مسجد کے نیچے مندر ہونے کا دعوی کرکے مسجدوں کو ختم کرنے اور مندر بنانے کی ہُنکار بھری جارہی ہے۔
مسجدیں، جو نشانے پر ہیں:
22-23 دسمبر 1949 کی درمیانی رات تھی۔رات کے اندھیرے میں شرپسندوں نے بابری مسجد میں مورتیاں رکھ دیں۔صبح ہوئی اور شور مچا دیا گیا: رام لَلا پِرکَٹ ہوئے ہیں۔”
پِرکَٹی کَرَن کا یہ پہلا دعویٰ تھا۔اس کے 73 سال بعد بنارس کی شاہی عالم گیری مسجد محلہ گیان واپی میں سروے کے دوران وضو خانے میں لگے فوّارے کو شِو لِنگ قرار دے کر شور مچایا گیا کہ “بابا پِرکَٹ ہوئے ہیں۔” پِرکَٹی کَرَن کا یہ دوسرا دعوی تھا۔اس کے بعد تو مسجدوں کے نیچے ہندو مندر ہونے کے دعووں کی جھڑی لگ گئی اب تک کئی تاریخی مساجد و مقابر پر مندر ہونے کا دعوی/مقدمہ کیا جاچکا ہے، جس کی ایک چھوٹی سی فہرست یہ ہے:
1۔مسجد قوت الاسلام، قطب مینار دہلی
2۔جامع مسجد دہلی 3۔تاج محل آگرہ، یوپی
4۔شاہی عید گاہ، متھرا یوپی 5۔بیگم مسجد لال قلعہ، آگرہ یوپی
6۔کمال مسجد، دھار، ایم پی
7۔آستانہ غریب نواز، اجمیر شریف
8۔جامع مسجد پاٹن، احمد آباد گجرات
9۔مسجد اعلی، میسور کرناٹک 10۔دیول مسجد ، نظام آباد تلنگانہ
11۔ادینہ مسجد، پنڈوہ بنگال 12۔جامع مسجد، مانڈو، ایم پی
13۔جامع مسجد سنبھل، یوپی 14۔جامع مسجد التمش، اجین ایم پی
اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہر مسجد کو قدیم مندر بتا کر ہندوؤں کو سونپنے بہ صورت دیگر بابری مسجد جیسا قضیہ دہرانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
ان کی تیاری پوری ہے:
جس زمانے میں بابری مسجد پر قبضہ کرنے کی مہم شروع ہوئی تو شدت پسند کہتے تھے کہ ہمیں صرف بابری مسجد چاہیے، باقی کسی مسجد سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد ان کا مطالبہ متھرا کی شاہی عیدگاہ اور بنارس کی شاہی عالم گیری مسجد تک آ پہنچا۔ اپنے دعوے کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے ایک جارحانہ نعرہ گڑھا گیا:
اجودھیا تو جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے۔”
اس طرح یہ گنتی تین مسجدوں تک پہنچی جو بعد میں تین سو پھر تین ہزار پھر تیس ہزار تک پہنچا دی گئی اور اب تقریباً تمام ہی مسجدوں پر مندر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔
اسے آپ ان کی ہڑبونگ یا بڑ نہ سمجھیں بلکہ شرپسندوں نے اس سمت میں سنجیدہ کوشش کرتے ہوئے باضابطہ ان مساجد کی فہرست بھی بنائی ہے جو ان کے بقول مندر توڑ کر بنائی گئی ہیں۔سن 1990 میں سیتا رام گویل نے ارون شوری، جے دُباشی، ہرش نارائن، رام سوروپ کے ساتھ مل کر دو جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب
Hindu temples: what happened to them
(ہندو مندروں کے ساتھ کیا ہوا) لکھی۔ جس میں مسلم سلاطین ونوابین کے ذریعے تعمیر کردہ 1800 سو سے زیادہ مساجد اور تاریخی مقامات کو مندر توڑ کر بنانے کا الزام لگایا ہے۔کتاب میں مصنف نے کمال عرق ریزی سے کام کرتے ہوئے ہر صوبے کی ضلع وار فہرست بنائی ہے۔اس فہرست کی ہلکی سی جھلک آپ حضرات بھی ملاحظہ کریں اور شدت پسندوں کی تیاریوں نیز اپنی کاہلی اور غفلتوں کا اندازہ بھی لگائیں:
1۔اتر پردیش میں کل 299 مسجدوں کو مندر قرار دیا گیا ہے۔
2۔کرناٹک میں 192 مساجد نشانے پر ہیں۔
3۔جنوبی ہند کے تمل ناڈو میں 175 مساجد قدیم مندر بتائی گئی ہیں۔
4۔راجستھان میں 170 مساجد ومقابر کو مندر کی باقیات پر بتایا گیا ہے۔
5۔گجرات میں بھی 170 مسجدیں/مقبرے/تاریخی عمارتیں ہندو مندر قرار دی گئی ہیں۔
6۔مدھیہ پردیش میں 151 مساجد اور تاریخی مقامات پر ہندو مندر ہونے کا الزام ہے۔
7۔مہاراشٹر میں 143 مسجدیں/مقبرے ان کے نشانے پر ہیں۔
8۔بنگال کی 102 مسجدیں نشانے پر ہیں۔
9۔ہریانہ کی 77 مسجدیں ان کی فہرست میں ہیں۔
10۔بہار کی 77 مسجدیں اور مقبرے شامل فہرست ہیں۔
11۔دلی کے بھی 72 اہم مقامات اور مساجد ان کے نشانے پر ہیں۔
اس کے علاوہ کیرل، دمن دیو، ہماچل پردیش، پنجاب، اڈیشہ، چھتیس گڑھ، آسام، لکش دیپ کے اضلاع بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔یہ فہرست صرف صوبائی آنکڑوں پر مشتمل نہیں ہے بلکہ باضابطہ مساجد/مقابر کے نام وپتے کے ساتھ ضلع وار فہرست بنائی ہے۔جسے پڑھ کر یکبارگی ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کتاب کی تیاری اور اپنے پروپیگنڈے کو دھار دینے کے لیے انہوں نے کس قدر محنت سے کام لیا ہے۔ابھی تو 1800 مقامات کی فہرست بنائی ہے جلد ہی ایسی کتاب بھی منظر عام پر لائی جاسکتی ہے جس میں تیس ہزار یا تین لاکھ مساجد کی فہرست اس دعوے کے ساتھ شامل ہو کہ یہ سب مسجدیں قدیم مندروں کے ڈھانچے پر تعمیر کی گئی ہیں۔
مستقبل کیا ہے؟:
ان دنوں ایسے حالات بنا دئے گئے ہیں کہ کوئی بھی مسجد/ مزار/ قلعہ/ مقبرہ اور تاریخی جگہ محفوظ نہیں ہے۔کوئی بھی گم نام فرد یا تنظیم کہیں بھی ککرمتّے کی طرح پھوٹ پڑتی ہے اور ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے۔جو کچہریاں سالہا سال تک معمولی مقدمات کو لٹکائے رکھتی ہیں وہ ان معاملات میں کمال عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ سنا رہی ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر بعض لوگوں کا مشورہ ہے مسلمان اپنے مدراس ومساجد کے کاغذات درست اور محفوظ رکھیں۔ایک حد تک مشورہ بالکل درست اور اچھا ہے لیکن حالیہ تنازعات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کسی بھی مسجد کو متنازعہ بنانے کے لیے کسی شدت پسند کا زبانی دعویٰ ہی کافی ہے بھلے ہی وہ مسجد کتنی ہی معتبر اور تاریخی دستاویز رکھتی ہو۔ایسے حالات میں مسجدوں اور مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
مرکزی حکومت ہو کہ صوبائی حکومتیں،سب خاموش تماشائی بنی ہیں۔ہماری سیاسی یتیمی نے ہمیں اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ کوئی سیاسی لیڈر اس عنوان پر رسمی مذمت کو بھی آمادہ نہیں ہے۔میڈیا حسب سابق مسلم بادشاہوں کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف ہندو معاشرے کو بھڑکانے کی مہم میں مصروف ہے۔دانش ور طبقہ بھی ہندتوا کی سونامی میں بہہ رہا ہے اور مسلمانوں سے ہی قربانی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
اپنا لائحہ عمل کیا ہو؟:
یہ بات شاید ہی کسی کے گلے اترے کہ حالیہ واقعات بغیر حکومتی منشا اور پشت پناہی کے منظر عام پر آئے ہیں۔نظریاتی طور پر حکومت جس تنظیم کی پابند ہے یہ اسی کا ایجنڈا ہے۔اس لیے برسر اقتدار پارٹی کے بعض عہدے داران نے کھلے عام وہی زبان استعمال کی ہے جو متشدد تنظیمیں کرتی ہیں۔ایسے حالات میں انصاف کی امید لگانا خود فریبی سے کم نہیں مگر پھر بھی جو کام ہماری دست رس میں ہیں اُنہیں پہلی فرصت میں کرلینا چاہیے۔
مساجد چاہے قدیم ہوں کہ جدید، تاریخی ہوں کہ عوامی، ان کے مالکانہ کاغذات تلاشیں، خامیاں ہوں تو درست کرائیں۔
نقشہ نظری وغیرہ کے اعتبار سے حدود اربعہ کا صحیح تعین کریں۔
جن مساجد ومقابر پر کمرشل دکانیں بنی ہوں، ان کی کرایہ داریاں درست کرائیں۔
کرایہ دار غیر مسلم ہوں تو بہ کمال حکمت خالی کرائیں۔
بجلی کنکشن/واٹر کنکشن جیسے معاملات درست رکھیں۔
مسجد کمیٹیوں میں پڑھے لکھے مگر دین دار افراد رکھیں۔ مفاد پرست سیاست دانوں/مخبروں/لبرلوں سے کمیٹیاں محفوظ رکھیں۔
بے جا بیان بازیوں سے پرہیز کریں۔
مساجد ومقابر کی تاریخی حیثیت کو اچھے انداز میں اجاگر کریں اور اپنے اداروں میں شامل نصاب کریں۔
جن تاریخی مساجد و مقامات پر نمازیں جاری ہوں، وہاں ادائیگی کا خصوصی اہتمام کریں۔
جہاں نمازوں پر اے ایس آئی(ASI) جیسے اداروں نے پابندی لگا رکھی ہو، انہیں اچھے وکلا کے ذریعے کچہریوں میں چیلنج کریں۔
جن مساجد وآثار پر اغیار نے قبضہ کر رکھا ہے انہیں مضبوط شواہد کے ساتھ کچہریوں میں چیلنج کیا جائے۔
اس کے علاوہ دیگر جو بھی مفید اقدامات ہوں انہیں بروئے کار لایا جائے اور اپنی کوششوں میں کسی طرح کی کمی باقی نہ رکھی جائے کہ ہم اسی کے مکلف ہیں۔کل قیامت میں ہم سے ہماری کوششوں کے متعلق ہی سوال ہوگا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔مومنانہ غیرت وحکمت سے کام لیں۔مطالعہ کرنے اور علمی محافل میں جانے/سننے کا مزاج بنائیں۔اخلاق وکردار کی درستی وإصلاح کریں۔کردار وگفتار کو اچھا بنائیں۔اپنی مسجدوں/مدرسوں/مقبروں کو دنیوی خرابیوں کا اڈا اور اوباشوں کی بیٹھک نہ بننے دیں۔
خوب یاد رکھیں!:
ہم ایک آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں۔ہمارے کردار و گفتار سے اسلام کی تعلیم وتربیت طے کی جارہی ہے ایسے حالات میں ہمیں ہر لحاظ سے خود کو اسلامی افکار و نظریات کا نمائندہ نظر آنا ہے۔کم ہمتی اور بزدلی کو قریب نہ آنے دیں۔موجودہ مشکلات کا ہمت وجرأت کے ساتھ مقابلہ کریں۔گفتگو کرنے میں ہمیشہ مناسب الفاظ کا استعمال کریں، دبّوپن ہو نہ ہلکاپن، لہجہ مضبوط مگر باوقار ہو۔ہمیں مومنانہ عزیمت کے ساتھ موجودہ مشکلات کا ہمت وجرأت کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔
طوفانوں سے آنکھ ملاؤ، سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کا چکر چھوڑو، تیر کے دریا پار کرو
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *