[]
سید سرفراز احمد
وطن عزیز کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں اس ملک کے مسلمانوں نے پیش کی ہیں ۔ جب بھی وطن کو جان ومال کی ضرورت پڑی مسلمانوں نے کبھی پس و پیش نہیں کیا ۔اپنا لہو اس خاک وطن کے حوالے کیا لیکن اسکا صلہ آج بھی ظلم و ستم کے روپ میں مل رہا ہے مسلمانوں کو نا انصافی کے اعلی درجے پر رکھا جارہا ہے غیرجانبداری کو فراموش کرتے ہوئے جانبداری سے کام لیا جارہا ہے پھر بھی مسلمان ان آزمائشی لمحات پر استقامت کی راہ کو اپناتا رہا محض اسی لیئے کہ وطن کی سالمیت برقرار رہے ملک میں امن اور سیکولرزم بحال رہے لیکن کہا جاتاہے کہ یہ سب یکطرفہ برقرار نہیں رہ سکتا خاص طور پر اس ملک کیلئے جہاں کثیر المذاہب کے ماننے والے رہتے ہوں بھارت کے مسلمانوں کی تاریخ کاسب سے بدترین سیاہ دن 6 دسمبر 1992رہا ہے جس دن فاشسٹ طاقتوں نے بابری کو منظم طریقے سے شہید کردیا تھا جس دن کو ملک کے مسلمان کبھی فراموش نہیں کرسکتے جسکی بازیابی کیلئے مسلمان اپنے حق کی قانونی لڑائی بھی لڑی محض اسی لیئے کہ انصاف کے مندر سے انصاف مل سکے لیکن یہ بھی ممکن نہ ہوسکا اور مسلمانوں کی تاریخ میں انھیں دوسرے سیاہ دن کا سامنا کرنا پڑا جس دن ملک کی عدالت عالیہ نے یعنی 9 نومبر 2019 کو بابری مسجد کے حق میں تمام دلائل کو مان کر بھی مسجد کی جگہ کو آستھا کی بنیاد پر ہندوؤں کے حق میں رام مندر کی تعمیر کیلئے اجازت دے دی تھی جس پر مسلمانوں کے اپنے مذہبی جذبات مجروح ہونے کے باوجود بھی انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پر امن قوم ہونے کی عمدہ دلیل پیش کی تھی حالانکہ مسلمانوں نے عدالت کے فیصلے سے عدم اتفاق اور مایوسی کا اظہار کیا تھا لیکن اپنی دینی تعلیمات کے پس منظر میں عدالت عالیہ کے فیصلے کا احترام بھی کیا عدالت کےاس ناقابل فہم فیصلے کو مسلمانوں نے نا چاہتے ہوئے بھی خاموشی کے رویہ کو اپنایا مسلمانوں کیلئے تیسرا سیاہ دن وہ تھا یعنی 22 جنوری 2024 کو پران پرتشٹھا کے ذریعہ رام مندر کا افتتاح عمل میں لایا گیا حالانکہ اس دن ملک کا ہر مسلمان گہرے دکھ اور کرب کی سسکیاں بھر رہا تھالیکن انصاف جاتا رہا اور چوتھا سیاہ دن 31 جنوری 2024 کا رہا ہے اس دن وارانسی کی ضلعی عدالت کے منصف نے اپنے عہدے کی سبکدوشی سے قبل گیان واپی جامع مسجد کے تہہ خانہ میں ہندوؤں کو پوجا پاٹ کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ملک کے مسلمانوں کے دلوں پر کراری ضرب لگائی اور اسی دن دہلی کے مہرولی کی چھ سو سالہ قدیم مسجد پر دہلی ڈیولپمنٹ اتھاریٹی نے پولیس کی موجودگی میں بلڈوزر چلاتے ہوئے انتہائی بدترین انداز میں شہید کردیا ان دلسوز واقعات نے ملک کے مسلمانوں کو اس قدر تشویش میں مبتلاء کردیا کہ گویا کہ اب انصاف کی کسی سے کوئی امید باقی نہ رہی ملک کا ایک اہم ادارہ عدالت جو انصاف کا مندر کہلاتا تھا آج وہاں بھی انصاف لرز رہا ہے نا انصافی کے فیصلے دوٹوک اور آسانی سے صادر کیئے جارہے ہیں جو جمہوریت کی روح کو روندنے کے مترادف ہے۔
جس انداز میں بنارس ضلع کی نچلی عدالت کے منصف نے گیان واپی جامع مسجد میں ہندوؤں کو پوجا پاٹ کرنے کا فیصلہ دیا ہے اس فیصلے نے تمام مسلمانوں کو مشکوک بنادیا وہ اس لیئے کہ ایک تو جس منصف اجے کمار ویشویش نے یہ فیصلہ سنایا ہے وہ انکے اپنے عہدے کا آخری دن تھا بالکل اسی طرح جس طرح سپریم کورٹ کے جسٹس گوگوئی نے رام مندر کے حق میں فیصلہ سنایا تھا دوسرا انھوں نے مسجد کمیٹی کی جانب سے داخل کی گئی درخواست یعنی تحفظ عبادت گاہ قانون کے تحت گیان واپی جامع مسجد کو تحفظ کا قانونی حق حاصل ہے کیونکہ یہ مسجد کی تاریخ یہ بتاتی ہیکہ یہ اس ملک کی وہ تاریخی مسجد ہے جو اورنگ زیب کے زمانے میں 16 ویں عیسوی یا اس سے قبل تعمیر کی گئی تھی لیکن ضلع جج نے اسکو بھی مسترد کردیا تیسرا یہ کہ جتنی ہٹ دھرمی سے ضلع جج نے جس طریقے سے فیصلے کو سنایا اس سے ضلع جج کی بے چینی ظاہر ہورہی ہیکہ گویا وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل فیصلہ سناکر کوئی تحفہ لینا چاہتے ہوں جس طرح جسٹس گوگوئی کو رام مندر کا فیصلہ سنانے کے بعد راجیہ سبھا کی رکنیت کا تحفہ دیا گیا تھا جنھیں اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ امن بگڑتا ہے بگڑنے دیں انتشار پھیلتا ہے پھیلنے دیں انصاف جاتا ہے جاتا رہے مجھے اس بات سے کوئی ہمدردی نہیں ہیکہ مترادف یہ فیصلہ صادر کردیا گیا جو مسلمانوں کی فہم سے باہر ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ کیا اب عدالتیں بھی تعصب کے چنگل میں پھنس چکی ہیں؟کیا عدالتوں سے مذہب کے نام پر فیصلے کیئے جائیں گے؟ایسا لگ رہا ہیکہ اب اس ملک میں تحفظ عبادت گاہ قانون(پلیس آف ورشپس ایکٹ 1991) صرف ہندوؤں کے مذہبی مقامات کے تحفظ کیلئے باقی رہ گیا ہے کیونکہ تحفظ عبادت گاہ ایکٹ تمام مذاہب کے تاریخی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن ایسا تو مساجد کے ساتھ نہیں ہورہا ہے ملک کی کئی منادر پر جین مذہب طبقہ کی عبادت گاہیں ہونے کا دعوی ہے اگر جین طبقہ عدالت میں یہ دعوی کرے کہ آج کی مندر گذشتہ کل کی جین مندر تھی تو کیا عدالت جین مذہب کے حق میں فیصلہ سنائے گی؟ جس ایکٹ سے کسی بھی مذہب کا تحفظ ہورہا ہو یا نہ ہورہا ہو لیکن ہندو طبقہ کو اس ایکٹ سے بھر پور تحفظ مل رہا ہے ہندو طبقہ بھی ملک بھر میں ہزاروں مساجد پر منادر ہونے کا دعوی کرتا ہے تو یہ ایکٹ مساجد کیلئے لاگو کیوں نہیں ہوتا؟دعوے اپنی اپنی جگہ کیونکہ دعوی کرنے میں اور سچ ثابت ہونے میں بہت بڑا فرق ہے لیکن جب بھی کبھی کسی مسجد پر ہندو طبقہ دعوی کرتا ہے تو فوری اسکے دعوے کو تقویت دیتے ہوئے ہندو فریق کے حق میں فیصلے سنائے جارہے ہیں جس سے مذہبی انتشار پھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس سے ملک کا امن و اماں غارت ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اگر ہر دعوی کرنے والے کے حق میں عدالتیں فیصلہ سناتے رہے گی تو عدالتوں کا نہ کوئی معیار باقی رہے گا نہ کوئی اعتماد کرے گا۔
مسلمانوں کی مساجد دن بہ دن سازشوں کا شکار ہورہی ہے پہلے ہندو فریق کی جانب سے عدالت میں مندر پر مسجد بنوانے کا دعوی کیا جاتا ہے عدالت وقفہ لے کر فلمبندی کرواتی ہے پھر سروے کرواتی ہے اور سروے میں سابق میں مندر ہونے رپورٹ آتی ہے پھر ٹال مٹول کرتے ہوئے آخری میں منصف فیصلہ سنادیتا ہے ایسا لگ رہا ہیکہ مسلمانوں کے ساتھ یہ ایک جانبداری کا کھیل کھیلا جارہا ہے کیونکہ بابری مسجد ہو کہ بنارس کی گیان واپی جامع مسجد ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے گیان واپی جامع مسجد پر بھی ہندو فریق نے کاشی وشواناتھ مندر ہونے کا دعوی کیا جس طرح بابری مسجد کو رام جنم بھومی کا دعوی کیا گیا تھا عدالت نے گیان واپی جامع مسجد کا سروے کروایا پھر مسجد کے فوارے کو شیولنگ مانا گیا تاکہ کاشی وشواناتھ کے مندر ہونے کے دعوے کو مضبوط بنایا جاسکے پھر محکمہ آثار قدیمہ (آرکیالوجیل سروے آف انڈیا) کا مسجد کے تہہ خانے کا سروے کروانا اور رپورٹ میں مندر کے آثار قدیمہ ہونے کے انکشافات سامنے آنا اور آخری میں ہندو فریق کے حق میں منصف کافیصلہ،یہ تمام عمل در عمل اس بات کی طرف اشارہ ہیکہ ایک منصوبہ بند طریقے سے اس پر عمل کیا جارہا ہے مطلب نا انصافی کے رویوں کو دیکھکر اس ملک کا کوئی مسلمان بھی یہ گمان نہیں رکھا ہوگا کہ گیان واپی جامع مسجد کا فیصلہ مسلم فریق کے حق میں آئے گا کیونکہ جس طرح سے بابری مسجد کا فیصلہ آیا ہے اس کے بعد سے سنجیدہ عوام ہو یا مسلمان عدلیہ کو لیکر عدم اطمینان کی کیفیت کا شکار ہے۔
ضلعی عدالت بنارس کے جج نے اندرون ایک ہفتہ گیان واپی جامع مسجد کے تہہ خانہ میں پوجا پاٹ شروع کرنے کا حکمانہ جاری کیا لیکن فیصلہ کی رات ہی ہندو فریق نے مسجد کے تہہ خانہ میں پوجا پاٹ کا آغاز کردیا مسلم پرسنل لابورڈ نے مندر کے حق میں دیئے جانے والے فیصلے کو نا قابل قبول مانا ہے جو ایک خوش آئند اقدام ہے اور اس کیس کے ضمن میں اتر پردیش کی ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کا اعلان کیا ہے جبکہ جامع مسجد گیان واپی کے مسلم فریق نے اس کیس کو عدالت اعظمی سے رجوع کیا لیکن عدالت اعظمی نے فوری سماعت سے انکار کرتے ہوئے پہلے ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کی ہدایت دی سوال یہ ہیکہ ہائی کورٹ ہو یا سپریم کورٹ کیا یہاں سے بہتر فیصلے اور انصاف کی امید کی جاسکتی ہے؟جبکہ بابری مسجد کا شاخسانہ ہمارے لیئے بہتر دلیل ہے ہاں کیس کا ایک طویل سلسلہ چلے گا پھر بات تو شائد آستھا پر آکر رک بھی سکتی ہے جس طرح بابری مسجد کے معاملہ میں ہوچکا ہے لیکن اس طویل مدت میں تو مسجد کے تہہ خانہ میں مندر میں پوجا پاٹ جاری رہے گی لہٰذا مسلم فریق ہو کہ مسلم پرسنل لابورڈ یا ملی تنظیمیں اس معاملہ میں سر جوڑ کر بیٹھیں بلکہ بار بار بیٹھیں اور مزید کوئی سہل راستہ ڈنھونڈ نکالیں جس سے امت کے اندر پھیل رہی مایوسی اور یتیمیت کا خوف دور ہوسکے کیونکہ ملک بھر کی کئی مساجد ایسے ہی سازشوں کا شکار ہورہی ہیں دہلی کی چھ سو سالہ قدیم عمارت کو بناء اطلاع کے شہید کردینا حتی کہ قرآن ودینی کتابوں کو بھی محفوظ نہیں رکھا گیا بلکہ ان متاثرہ نسخوں کو بھی ہاتھ لگانے نہیں دیا گیا مدرسے کے بچوں کا ساز و سامان بھی بلڈوزر کی زد کردینا یہ ایک گھناؤنا جرم ہی تو ہے جو دستور کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے سوال یہ ہیکہ کون انکے خلاف کاروائی کرےگا؟کیا ان سے جوابدہی نہیں لی جائے گی؟کیا یہ عدالت کے کٹھہرے میں نہیں لائے جائیں گے؟ سوچئے سازشوں کا سیلاب امڈ رہا ہے کل بابری مسجد ہاتھ سے گئی اور آج گیان واپی جامع مسجد ہاتھ سے نکل رہی ہے اور آنے والے کل میں متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد بھی نشانے پر ہے جسکے مقدمات بھی زیر التواء ہیں اور کئی مساجد بھی نشانے پر ہیں مطلب ماضی میں ظلم بھی ہم نے کیا ہے سازشیں بھی ہم کررہے ہیں اسی لیئے ہمیں پختہ یقین تھا کہ قصور ہمارا ہی نکلے گا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰