غزہ پٹی میں اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں صیہونی حکومت کی ناکامی کے اسباب

[]

مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک- khamenei.ir: صیہونی حکومت قریب سو دن سے جاری جرائم کے بعد بھی اپنا کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر سکی ہے۔ اس نے کہا کہ حماس کو ختم کر دیں گے، نہ کر سکی۔ اس نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کو کہیں اور منتقل کر دیں گے، وہ نہ کر سکی۔ اس نے کہا کہ استقامتی تحریک کے اقدامات کو روک دیں گے، یہ بھی نہ کرسکی۔ یہ 9 جنوری کو رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا ایک حصہ ہے جس میں انھوں نے غزہ پٹی میں اپنے اہداف کے حصول میں صیہونی حکومت کی ناکامی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اب جبکہ غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کے حملے کو 100 دن سے زیادہ ہو گئے ہیں، اپنے ان اہداف کو عملی جامہ پہنانے میں تل ابیب کی ناکامی پہلے سے کہیں زیادہ اجاگر ہو گئی  ہے، جنھیں حاصل کرنے کا اس نے عہد کیا تھا۔

حماس کا خاتمہ، وہ خواب جو شرمندۂ تعبیر نہ ہوا

“(تحریک) حماس باقی نہیں رہے گی کیونکہ ہم اس کا خاتمہ کر دیں گے۔”صیہونی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے 8 دسمبر سنہ 2023 کو یہ بات کہی تھی اور اسی مہینے کی 31 تاریخ کو اپنے ایک بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ “(غزہ کے خلاف) جنگ میں ہمارا ہدف، حماس کا مکمل خاتمہ ہے۔طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کی فوجی جارحیت شروع ہونے کے وقت سے اب تک، اس غاصب حکومت نے بارہا اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے خاتمے کو اپنا سب سے بنیادی ہدف بتایا ہے لیکن صیہونی فوج کو ہونے والے جانی اور مالی نقصان میں اضافہ، کچھ اور ہی کہانی بیان کرتا ہے۔ صیہونی فوج نے 7 اکتوبر 2023 سے 9 جنوری 2024 تک مارے جانے والے اپنے فوجیوں کی تعداد 519 بتائی ہے جبکہ القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ کا کہنا ہے کہ صیہونیوں کو ہونے والا جانی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا وہ بتا رہے ہیں۔

طاقتور فوجی ڈھانچے کے ساتھ ہی غزہ کی استقامتی فورسز  کا ایمانی اور جہادی جذبہ، ہمہ گیر جنگ کے 100 دن بعد بھی مزاحمتی فورسز کی استقامت کے تسلسل اور عدم شکست کے سب سے اہم اسباب میں سے ایک ہے۔ اسٹریٹیجک امور کے ماہر ڈاکٹر مسعود اسد اللہی نے khamenei.ir ویب سایٹ سے بات کرتے ہوئے صیہونی فوج کی جانب سے غزہ میں زمینی طور پر داخل ہونے کی غلط اسٹریٹیجی اختیار کرنے اور صیہونی حکومت کے مقابلے میں استقامت کرنے کی مزاحمتی گروہوں کی صحیح اسٹریٹیجی کو صیہونیوں کی فوجی شکست کی سب سے اہم وجہ بتایا۔ انھوں نے مزاحمتی فورسز کے افراد کے ایمان اور اسلامی عقیدے کو، 100 دن کے جرائم کے بعد صیہونی حکومت کی شکست کی سب سے اہم وجہ قرار دیا۔ جیسا کہ اسرائیلی اخبار یدیعوت احارانوت نے بھی اس سلسلے میں لکھا ہے: “حماس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک ختم نہ ہونے والی فوج ہے، بنابریں اس کے خاتمے کی بات کرنا خیالی پلاؤ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بھی 9 جنوری کو زور دے کر کہا تھا کہ “فلسطینی مزاحمت تازہ دم، بانشاط اور مستعد ہے جبکہ صیہونی حکومت خستہ حال ہے، اس کا سر جھکا ہوا اور وہ پشیمان ہے اور اس کی پیشانی پر مجرم کے کلنک کا داغ لگا ہوا ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جو اِس وقت ہے۔”

دوسری جانب امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر اوراہام شاما بھی غزہ کی حالیہ جنگ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: “اس وقت غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے قطع نظر، مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ حقیقت میں اسرائیل ہار گیا اور حماس کو فتح حاصل ہوئی۔

اس کے علاوہ حماس تحریک اور فلسطینی مزاحمت ایک عوامی استقامت ہے جسے سماجی پوزیشن اور پشت پناہی حاصل ہے اور اس کے خاتمے کی بات نہیں کی جا سکتی۔ یہ وہی بات ہے جس کی طرف امریکی تجزیہ نگار رچرڈ سلور اسٹائن اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: “حماس صرف ایک فوجی تنظیم نہیں ہے بلکہ قومی جدوجہد کی ایک تحریک ہے اور اسی وجہ سے اس کا خاتمہ ناممکن ہے۔

صیہونی جنگی قیدیوں کی رہائی میں تل ابیب کی فضیحت

غزہ پر فوجی جارحیت میں تل ابیب کے اہم ترین اہداف میں سے ایک، جسے عملی جامہ پہنانے کا وعدہ نیتن یاہو اب تک کئی بار کر چکے ہیں، صیہونی جنگی قیدیوں کی رہائی ہے۔ غزہ کی جنگ کو 100 دن سے زیادہ گزر جانے کے بعد بھی، صیہونی حکومت اپنے ایک بھی جنگی قیدی کو، مذاکرات کے نتیجے میں رہا ہونے والے قیدیوں سے ہٹ کر، رہا نہیں کرا سکی ہے۔ 24 نومبر سے شروع ہونے والی 7 دن کی جنگ بندی کے دوران ہی فلسطینی مزاحمت نے قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں کچھ صیہونی جنگی قیدیوں کو رہا کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صیہونی، نہ صرف اپنے جنگی قیدیوں کو طاقت کے بل پر رہا کرانے میں ناکام رہے ہیں بلکہ وہ اس ہدف کے حصول کے لیے، مزاحمت سے مذاکرات پر بھی مجبور ہو گئے حالانکہ پہلے ان کا دعوی تھا کہ وہ کبھی اس سے مذاکرات نہیں کریں گے۔

صیہونی حکومت نہ صرف جنگی قیدیوں کی رہائی کے اپنے اعلان شدہ ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہے بلکہ جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے کی جانے والی اپنی کوششوں میں انھیں ایک بار زبردست ذلت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ واقعہ 15 دسمبر کا ہے جب صیہونی فوج نے اعلان کیا کہ بعض جنگی قیدیوں کو رہا کرانے کے آپریشن کے دوران اس کے فوجیوں نے غلطی سے ان میں سے تین قیدیوں کو قتل کر دیا ہے۔ اس بڑی رسوائی پر مقبوضہ فلسطین میں زبردست اعتراض اور احتجاج سامنے آیا تھا اور اس نے صیہونی وزیر اعظم کے خلاف داخلی دباؤ کو پہلے سے زیادہ بڑھا دیا تھا۔ صیہونی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف ہرزی ہالیوی نے اس فضیحت پر اپنے ردعمل میں کہا کہ “اسرائیلی فوج کو اس آپریشن میں شکست ہو گئی جو اس نے جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے کیا تھا۔حماس کی فوجی شاخ کے ترجمان ابو عبیدہ نے بھی کہا کہ “اسرائیل قیدیوں کے تبادلے کے عمل اور مزاحمت کی شرطوں پر عمل کیے بغیر اپنے جنگی قیدیوں کو زندہ واپس نہیں لے پائے گا۔

لبنان کے اسٹریٹیجسٹ امین حطیط نے khamenei.ir ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے اور اپنے جنگی قیدیوں کی رہائی میں صیہونیوں کی ناکامی کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ “اسرائیل کی کوئی بھی مسلحانہ کارروائی، اس کے جنگی قیدیوں کی رہائی پر منتج نہیں ہوئی کیونکہ فلسطینی مزاحمت نے صیہونی حکومت کی دسترس سے جنگی قیدیوں کو دور رکھنے کے لیے بخوبی سبھی ضروری اقدامات کیے۔ دراصل مزاحمت اس بات کا سبب بنی کہ صیہونی حکومت کے سامنے صرف دو آپشن رہیں۔ یا تو وہ سبھی جنگی قیدیوں کو مار ڈالے یا پھر ان کی رہائی کے لیے مذاکرات کرنے کو تیار ہو جائے۔

فلسطینی مزاحمت کے فوجی ڈھانچے کو تباہ کرنے میں ناکامی

صیہونی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری نے 3 نومبر 2023 کو دعوی کیا کہ اسرائیلی فوجی غزہ میں پیشروی کرتے ہوئے، زمین کے اوپر اور نیچے موجود تمام فوجی ڈھانچوں کو تباہ کر دیں گے۔ اس کے باوجود غزہ سے مقبوضہ علاقوں کی جانب راکٹ فائر کیے جانے کا عمل بدستور جاری ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی، مزاحمت کے فوجی ڈھانچوں کو نقصان پہنچانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔

القسام بریگیڈ نے صیہونی حکومت کی ناکامی کی گہرائی کی تصویر کشی کے لیے سنہ 2024 کے ابتدائی منٹوں میں ہی 21 “ایم-90” میزائیل تل ابیب کے بعض علاقوں پر فائر کیے۔ اس تعداد میں میزائیل فائر کیا جانا وہ بھی نئے سال کے بالکل ابتدائی منٹوں میں، میزائیل حملوں کے وقت اور مقام کے تعین میں مزاحمت کی کمان کی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حماس نے اپنی اس کارروائی سے، میزا‏ئیل حملوں کے میدان میں مزاحمت کی 80 فیصد فوجی توانائی کو تباہ کر دینے پر مبنی اسرائیل کے دعوے کی پول کھول دی۔ بلاشبہ پوری غزہ پٹی میں کھودی گئی سرنگوں کا پیچیدہ نیٹ ورک بھی، مزاحمت کی فوجی توانائی کو نقصان پہنچانے میں صیہونی حکومت کی ناکامی کا ایک اہم سبب رہا ہے۔

غزہ کے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے میں ناکامی

جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے حالیہ خطاب میں کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر فلسطین کے باہر کسی دوسرے علاقے میں نقل مکانی پر مجبور کرنے میں صیہونیوں کی ناکامی، اپنے اعلان شدہ اہداف میں سے ایک اور کو عملی جامہ پہنانے میں صیہونی حکومت کی شکست ہے۔ اس سے پہلے صیہونیوں نے باضابطہ طور پر غزہ میں رہنے والوں کو غزہ پٹی سے کہیں اور منتقل کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں نیتن یاہو کابینہ کے داخلی سیکورٹی کے وزیر ایتمار بن غفیر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا: “غزہ کے لوگوں کی نقل مکانی ہمیں، غزہ پٹی میں کالونیاں بنانے کا موقع فراہم کرے گی۔” اسی طرح صیہونی حکومت کے وزیر خزانہ بتسالیل اسموتریچ نے بھی غزہ کے لوگوں کو اس پٹی سے دوسری جگہ منتقل کیے جانے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا: “جنگ ہمیں اس بات کا مواقع فراہم کرے گی کہ غزہ کے لوگوں کو کہیں اور منتقل کرنے کے موضوع پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔” انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ “میرے خیال میں سب سے اچھا طریقۂ کار یہ ہے کہ غزہ کے لوگوں کو ان ملکوں میں منتقل کر دیا جائے جو ان کی پذیرائی کے لیے تیار ہیں۔

یہ سارے بیان اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس علاقے کے لوگوں اور مزاحمت کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کے اہم اہداف میں سے ایک، غزہ کے لوگوں کی جبری نقل مکانی تھی اور ہے تاہم غزہ کے لوگوں کے صبر اور استقامت نے صیہونیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ وہ اپنے اس ہدف کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ اپنی سرزمین میں غزہ کے عوام کی استقامت اور پامردی اس بات کا سبب بنی ہے کہ وہ پانی، بجلی، غذائی اشیاء اور بنیادی ضرورت کے وسائل کے فقدان کے باوجود جبری نقل مکانی کے دباؤ کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکیں۔ یہ صبر و استقامت اس حد تک ہے کہ عرب تجزیہ نگار نہاد ابو غوش کا کہنا ہے کہ “غزہ میں رہنے والے فلسطینی، نقل مکانی پر اپنے گھر بار میں مرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس صبر و استقامت کو سراہتے ہوئے کہا ہے: “ایک چھوٹے سے علاقے کے چھوٹے سے گروہ نے بلند بانگ دعوے کرنے والے امریکا اور اس کی گود میں بیٹھی ہوئی صیہونی حکومت کو اپنے صبر و استقامت کی طاقت سے لاچار کر دیا ہے۔

اسٹریٹیجک امور میں لبنان کے تجزیہ نگار امین حطیط نے khamenei.ir ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے غزہ پٹی کے لوگوں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرنے کی سازش کو ناکام بنانے میں غزہ کے لوگوں کے صبر، مزاحمت اور استقامت کے کردار کے بارے میں کہا: “صیہونی حکومت نے غزہ کے لوگوں کو ان کی سرزمین سے باہر نکالنے کو اپنے ایک اصلی ہدف کے طور پر پیش کیا تھا لیکن ہم نے دیکھا کہ اس وقت بھی جب غزہ کے عوام کے گھر تباہ ہو گئے، انھوں نے اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھنے کو، جبری نقل مکانی پر ترجیح دی۔ غزہ کے لوگوں نے اس طرح دشمن کی سازش کو ناکام بنا دیا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *