[]
حیدرآباد: حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی تلنگانہ مائنارٹیز ریسیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس سوسائٹی (ٹمریز) کے سربراہ کوتبدیل کردئیے جانے سے ٹمریز میں کام کرنے والے بدعنوان عہدیدار‘ جہاں یکے بعد دیگر مستعفی ہونا شروع ہونے لگے ہیں
وہیں چند لوگ اپنی اجتماعیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادارہ کے سربراہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سابق حکومت میں سوسائٹی کے سربراہ بی ایس شفیع اللہ کے بعد سب سے زیادہ بااثر سمجھے جانے والے اکاڈمک ہیڈ محمد عبداللطیف عطیر جنہوں نے اس ادارہ میں 10 برس تک راج کیا تھا
اور وہی سیاہ و سپید کے مالک بن بیٹھے تھے، بالآخر اپنے مکتوب استعفیٰ روانہ کردیا ہے۔ انہوں نے سکریٹری کے تبادلہ کے ساتھ ہی 15 یوم کی رخصت حاصل کرلی تھی اور انہیں جوں ہی یہ اطلاع ملی کہ ان کی بدعنوانیوں کے تعلق سے تحقیقات شروع کی گئی ہیں، تو اُنہوں مستعفی ہوجانے میں ہی اپنی عافیت محسوس کی ہے۔
ان کے استعفیٰ کو محکمہ جاتی تادیبی کارروائی سے بچنے کا ایک حربہ تصور کیا جارہا ہے۔ ادارہ کے سربراہ کی تبدیلی کے بعد استعفیٰ دینے والے عبداللطیف تیسرے عہدیدار ہیں۔ ان سے قبل دو خاتون عہدیدار استعفیٰ دے چکے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دیگر محکمہ سے عارضی خدمات پر مامور دو عہدیدار بھی اپنی میعاد کی تکمیل کے بعد اپنے حقیقی محکمہ کو واپس چلے جانے والے ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وظیفہ پر سبکدوشی کے بعد بھی ملازمت جاری رکھنے والے عہدیدار بھی جوں ہی ان کی توسیع کی مدت ختم ہوجائے گی، خاموشی کے ساتھ گھر بیٹھ جانے پر غور کررہے ہیں۔ سمجھا جارہا ہے کہ محکمہ جاتی تحقیقات اور مابعد کارروائیوں سے بچنے کے لئے عبداللطیف نے سبکدوش ہوجانے میں ہی اپنی عافیت محسوس کی ہے۔
ان پر ماضی میں سنگین بے قاعدگیوں اور بڑے پیمانہ پر رقمی خرد برد کے الزامات عائد ہوچکے ہیں۔ وہ سابق سکریٹری مسٹر بی ایس شفیع اللہ اور صدر سوسائٹی مسٹر اے کے خان کے نور نظر تھے چونکہ یہ دونوں ہی انہیں انتہائی دیانت دار اور محنتی قرار دیتے تھے اور انہیں ان کے خلاف موصولہ شکایت پر کارروائی کرنے سے عار تھا‘ معلوم نہیں اس شخص نے ان پر کیا جادو کررکھا تھا۔
عبداللطیف کے خلاف موصولہ شکایت پر ایک مرتبہ ویجلنس شعبہ کے اس وقت کے سربراہ کے ذریعہ جانچ کروائی گئی تھی۔ ویجلنس آفیسر نے اپنی رپورٹ میں چند سنگین بے قاعدگیوں کی نشان دہی کی تھی جس کو ریکارڈ کا حصہ بننے نہیں دیا گیا اور اس آفیسر کی بجائے دوسروں سے موافقت میں رپورٹ تیار کرکے شامل ریکارڈ کردیا گیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ ادارہ سے صحت کے شعبہ میں کام کرنے والی ایک این جی اوز کو ماہانہ پانچ لاکھ روپے ایصال کئے جاتے رہے ہیں‘ اسی طرح حیدرگوڑہ میں واقع سرنظامت جنگ کی اوقافی جائیددا کے تحت ایک لائبریری کی تزئین پر بھی سوسائٹی کے فنڈس سے لاکھوں روپے جاری کئے گئے تھے جہاں بعد میں عبداللطیف نے اپنی ایک سائنس لیباریٹری بھی قائم کررکھی تھی اور اس لیباریٹری کے ذریعہ سوسائٹی کے تدریسی عملہ کو تربیت کی فراہمی کے نام پر لاکھوں روپے جاری کئے جاچکے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عبداللطیف کے زیر استعمال کمپوٹرس اور دیگر فائیلس کی باریک بینی سے جانچ کروائی جائے اور ضرورت پڑنے پر ویجلنس اینڈ انفورسمنٹ یا کمپٹرولراینڈ آڈیٹر جنرل کے ذریعہ جامع تحقیقات کروائی جائیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان بدعنوان عہدیداروں کا ساتھ دینے والے کچھ عہدیدار اب بھی کمپوٹرس سے فائیلس حذف کررہے ہیں اور دستی امثلہ جات کو تلف کررہے ہیں۔
ادارہ میں کام کرنے والے دیانت دار عہدیدار اب بھی محض اس لئے خاموش ہیں کہ انہیں یہ باور کروایا گیا کہ موجودہ سکریٹری محترمہ عائشہ مسرت خانم زیادہ دنوں تک برقرار رہنے والی نہیں ہیں اور ان کے جاتے ہی ان ارکان اسٹاف کو نشانہ بنایا جائے گا جن پر دیانت داری کا بھوت سوار ہے۔
ان بدعنوان عہدیداروں اور ملازمین نے یہ جتانا بھی شروع کردیا ہے کہ انہیں اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ ادارہ میں جاری بدعنوانیوں کے تعلق سے کون کون لوگ صحافت کو مواد فراہم کررہے ہیں اور اپنی بات میں دم پیدا کرنے کے لئے وہ چند ملازمین کے نام بھی لے رہے ہیں تاکہ یہ باور کروایا جاسکے کہ سربراہ کی تبدیلی کے فوری بعد ایسے لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائی کی جانے والی ہے۔
یہ بدعنوان عہدیدار یہ بھی تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسٹر محمد علی شبیر کا وزیر اعلیٰ کے مشیر بنادئیے جانے کے بعد ان کے لئے بہت ہی آسان ہوچکا ہے کہ محترمہ عائشہ مسرت خانم کا ادارہ سے تبادلہ کروادیا جائے اور پھر سے بی ایس شفیع اللہ کو واپس لا لیا جائے۔ اس کے پس پردہ ان کی بس یہی چال ہے کہ ایسے شریف عہدیدار کسی کے بھی سامنے کچھ انکشاف کرنے سے گریز کریں۔