[]
فلسطینی ایک ایسی ریاست کے خواہاں ہیں جس میں غزہ، اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کا الحاق ہو۔
سعودی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک موجودہ صورتحال میں جنگ کے اختتام پرغزہ کی تعمیرنو میں بھی حصہ نہیں لے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے فلسطینی ریاست سے متعلق سخت گیر موقف نے ان کے اتحادیوں کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے گا اور نہ ہی فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کسی قابل اعتماد راستے کی عدم موجودگی میں وہ غزہ کی تعمیر نو میں کوئی کردار ادا کرے گا۔ شہزادہ فیصل بن فرحان کے اتوار کو سی این این کے ساتھ انٹرویو میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے متعلق کسی اعلیٰ سعودی اہلکار کی جانب سے اب تک کی جانے والی سب سے براہ راست گفتگو تھی۔
سعودی وزیر کا یہ موقف اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے اس موقف سے متصادم ہے، جس کے تحت نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کرتے ہوئے غزہ پر کھلے عام فوجی کنٹرول کے منصوبےکا ذکر کیا ہے۔ غزہ کے مستقبل کے بارے میں تنازعہ ایک ایسے وقت کھڑا ہوا ہے، جب وہاں جنگ ابھی تک جاری ہے اور اس کے خاتمے کے آثار نظر نہیں آرہے۔ جنگ کے بعد کا ممکنہ منظرنامہ امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں کو اسرائیل کے خلاف کھڑا کر رہا ہے اور یہ صورتحال غزہ میں جنگ کے بعد ممکنہ حکمرانی یا تعمیر نو کے کسی بھی منصوبے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد موجودہ جنگ کے آغاز سے قبل امریکہ ایک تاریخی معاہدہ کرانے کی کوشش کر رہا تھا، جس کے تحت سعودی عرب کو امریکہ کی سلامتی کی ضمانتوں کے بدلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے تھے۔ امریکہ کی طرف سے سعودی عرب کو سویلین جوہری پروگرام کے قیام میں مدد اور اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل کی جانب پیش رفت کی ضمانتیں دی گئی تھیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ستمبر کے مہینے میں کہا تھا کہ اسرائیل ایک معاہدے کے “ابتدائی مرحلے پر” ہے، جو ان کے بقول مشرق وسطیٰ کو بدل دے گا۔ سی این این پروگرام جی پی ایس کے میزبان فرید زکریا نے جب سعودی وزیر خارجہ سے پوچھا: “کیا آپ واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ اگر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے قابل اعتبار اور ناقابل واپسی راستہ نہیں ہے تو سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر نہیں آسکیں گے؟” اس کے جواب میں شہزادہ فیصل نے جواب دیا۔ “جی، ہاں۔”
اس سے قبل انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب غزہ میں تعمیر نو کے لیے مالی اعانت کرے گا؟ اس پر شہزادہ فیصل نے کہا کہ اگر ہم اس تنازعے کے حل کے لیے ایک قرارداد، ایک راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جس کا مطلب ہو گا کہ ہم ایک یا دو سال میں دوبارہ موجودہ صورتحال میں واپس نہیں آنے والے، تب ہم کسی بھی چیز کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا “لیکن اگر ہم صرف سات اکتوبر سے پہلے کے جمود کو دوبارہ ترتیب دے رہے ہیں، جو ہمیں موجودہ صورتحال کی طرف لے آئے، جیسا کہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں، ہمیں اس گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
فلسطینی ایک ایسی ریاست کے خواہاں ہیں جس میں غزہ، اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کا الحاق ہو۔ یہ وہ علاقے ہیں، جو اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران قبضے میں لیے تھے۔ اسرائیل تمام یروشلم کو اپنے دارالحکومت اور مغربی کنارے کو یہودیوں کے تاریخی اور بائبل کے مرکز کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس نے مغربی کنارے اور یروشلم میں لاکھوں یہودی آباد کاروں کے گھروں پر مشتمل متعدد بستیاں تعمیر کر رکھی ہیں۔ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے امن مذاکرات کے کئی ادوار میں سے آخری تقریباً 15 سال قبل ٹوٹ گیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;