رام مندر،شہریت ترمیمی قانون اور یکساں سول کوڈبھاجپا کے انتخابی ایجنڈے اور ہماری حکمت عملی

[]

سید سرفراز احمد (بھینسہ)

بھاجپا اپنے اس سیاسی خواب کو پورا کرنے جارہی ہے جسے ایک عرصہ دراز سے آر ایس ایس اور اسکی سیاسی شاخ بی جے پی مذہب کی آڑ میں سیاست کی گرمجوشی دکھاتے ہوئے ملک پر حکمرانی کرتی رہی جسکی وجہ سے ملک کا ماحول عدم اطمینان کی کیفیت سے دوچار ہوتا رہا ہے لیکن وہ اپنے سیاسی خواب کو پورا کرنے کیلئے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ملیا میٹ کرتی رہی حتی کہ سیاست انصاف کے مندر تک بھی داخل ہوتی دیکھی گئی اور ہوا کیا وہی جو طئے شدہ تھا جو جمہوریت کو داغ داغ کررہا تھا انصاف کی دھجیاں اڑا رہا تھا جی ہاں بات ہورہی ہے رام مندر کی،آر ایس ایس اور بھاجپا کا روز اول سے یہ ایجنڈہ رہا کہ وہ اپنی سیاست کو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر کھیلتی ہے جو سیاست میں کامیابی کا سب سے آسان ذریعہ ہے دس سال پہلے بھی یہی بھاجپا نے رام مندر کے خواب کو پورا کرنے کا عوام سے سیاسی وعدہ لیا تھا دس سالوں میں بھاجپا اس وعدے کو پورا کرنے جارہی ہے لیکن ایسا نہیں ہیکہ بھاجپا اپنے دور حکومت میں صرف رام مندر پر ہی سیاست کا زور دکھایا بلکہ دس سالوں سے وقفہ وقفہ سے ملک کی اقلیتوں کو نشانے پر لیا گیا اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اب سوال یہ ہیکہ کیا بھاجپا آنے والے لوک سبھا انتخابات کیلئےاپنی سیاست کو رام مندر کے افتتاح پر اکتفاء کرلےگی؟کیا بھاجپا کو رام مندر کی تعمیر کا سیاسی فائدہ حاصل گا؟یا پھر بھاجپا تیسری بار حکمرانی میں آنے کیلئے مزید سیاسی ہتھکنڈے استعمال کرے گی؟اگر کرے گی توکیا اسکا سیاسی فائدہ بھاجپا کو ملے گا؟یہ وہ سوالات ہے جس کو لیکر شائد آر ایس ایس اور اسکی سیاسی شاخ بھاجپا بھی تذبذب کا شکار ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے کن ایجنڈوں کو اٹھایا جائے اور کونسے متنازعہ قانون کو پیش کرتے ہوئے ملک کی اکثریت کو اپنی طرف پر کشش بنایا جائے آئیے ہم ان تمام امور کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ابھی بھاجپا 22 جنوری کو ہونے والےرام مندر کے افتتاح کو ملک کی اکثریت میں مذہبی جنونیت کا ماحول پروان چڑھانے جارہی ہے حالانکہ رام مندر کا افتتاح ایک مذہبی عمل ہے لیکن بھاجپا نے اسکو سیاست سے وابستہ کردیا ابھی تک ملی اطلاع کے مطابق رام مندر کا کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پایا پھر رام مندر کے افتتاح میں اتنی بھی عجلت کیا ہے اور اسکا افتتاح وزیر اعظم ہی کیوں کررہے ہیں جبکہ یہ ایک غیر سیاسی تقریب ہے جسکے آسان جوابات یہی ہوسکتے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے ہندوتوا تنظیموں نے رام مندر کا نعرہ دیا تھا جسکو بھاجپا نے پوری شدت کے ساتھ قبول بھی کیا اور رام مندر کے ایجنڈے کو اپنا اہم سیاسی ایجنڈہ بنایا اب یہ تو ہونا ہی تھا کہ وہ رام مندر کی تعمیر کا سہرا خود ہی لے گی بھلا دھرم گروہوں کو وہ اتنے بڑے کام کا سہرا کیسے دے سکتی ویسے ہمارے وزیر اعظم مسٹر مودی جی کے پاس خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے وہ کسی اور پر بھروسہ نہیں کرسکتے اسی لیئے وہ اپنی شخصیت پرستی میں رتی برابر بھی آنچ نہیں آنے دینا چاہتے حتی کہ رام مندر کا سہرا بھی وہ خود اپنے ہاتھوں افتتاح انجام دے کر اپنے سر لینا چاہتے ہیں تاکہ آگے بھی پانچ سال وہ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے رہے تب ہی رام مندر کے افتتاح کو عین لوک سبھا انتخابات سے قبل کروایا جارہا ہے تاکہ اکثریتی فرقہ میں صرف مذہبی جذبات اور گرمجوشی کا بول بالا ہو اور وہ بھاجپا کے دور حکمرانی کی خامیوں کو فراموش کردے ہاں اسطرح کا ماحول بناکر اکثریتی طبقہ کے رائے دہندوں کو اپنی جانب پر کشش بنانے کی جو کوشش کی جارہی ہے جسمیں بھاجپا کچھ حد تک کامیاب بھی ہوگی اور اسکا فائدہ بھی حاصل ہوگا لیکن جس طرح سے سناتن دھرم کے بڑے بڑے شنکر آچاریاؤں نے بھی رام مندر کے افتتاح میں حکومت کے عمل دخل پر بائکاٹ کا اعلان کردیا چونکہ یہ افتتاحی تقریب ایک مذہبی تقریب سے ہٹ کر پوری طرح سے سرکاری تقریب بن چکی ہے جسمیں حکومت بلکہ مودی جی کا سب سے فعال کردار ہے اب سوال یہ ہیکہ مودی جی رام مندر کی افتتاحی تقریب میں پوری سرکاری مشنری کو کیوں جھونک رہے ہیں؟ شائد اسی لیئے کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں جیتنے کی خوشی کم اور شکست کھانے کا خوف ذیادہ لگا ہواہے کیونکہ پچھلے انتخابات میں بی جے پی 80 فیصد اکثریتی آبادی میں سے صرف 35 فیصد آبادی کو اپنا گرویدہ بناسکی تھی تو تصویر پانی کی طرح شفاف ہیکہ باقی 45 فیصد اکثریتی آبادی مودی مخالف میں ہی ہوگی ابھی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے شائد مودی مخالف تناسب میں اضافہ بھی ہوا ہوگاسیاسی مبصرین کا کہنا ہیکہ انڈیا اتحاد لوک سبھا کی160 نشستوں کو آسانی سے حاصل کرلے گی اور مزید 100 نشستوں پر بھی وہ غلبہ پاسکتی ہے یعنی 250 سے زائد لوک سبھا کی نشستیں انڈیا اتحاد کے حق میں آسانی سے آسکتی ہے کیونکہ کانگریس کے حق میں عوام کی رائے میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے جو راہل گاندھی کی شب و روز محنت کا ہی نتیجہ ہوسکتا ہے لیکن مزید انڈیا اتحاد کو محنت درکار ہے۔
پچھلے پانچ سالوں سےمودی حکومت پر شہریت ترمیمی قانون اور یکساں سول کوڈ کا بھوت سوار ہے یہی بھوت نہیں بلکہ کسان مخالف بل کو لا کر واپس لیا گیا 370 کو برخواست کیا گیا سی اے اے کو نافذ کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن شاہین باغ کے دادیوں کی تحریک نے حکومت مودی اور شاہ کو پانی پلوایا لیکن خدا کو کیا منظور تھا کہ کویڈ وباء کی وجہ سے شاہین باغ کی تحریک کو برخواست کرنا پڑا ورنہ معلوم نہیں یہ شاہین باغ کی تحریک حکومت کو کس درجہ تک مجبور کروادیتی ابھی حکومت اور مودی کے سیاسی تذبذب سے یہ اندازہ مل رہا ہیکہ مودی کو رام مندر کے افتتاح سے اکثریتی طبقہ کی جانب سے صد فیصد فائدہ حاصل نہیں ہونے والا ہے جس کیلئے مودی حکومت شہریت ترمیمی قانون اور یکساں سول کوڈ کو آئندہ سیشن میں پانسہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نافذ کرسکتی ہے اس بات کا اشارہ خود امیت شاہ نے بھی دیا ہےکہ ہم سی اے اے لاکر رہیں گے اور یکساں سول کوڈ کو لاگو کرنے کیلئے بھاجپا نے اپنی ڈبل انجن سرکار والی ریاست اتراکھنڈ میں اس کیلئے راہیں ہموار کرچکی ہیں بہت ممکن ہیکہ بھاجپا اپنی ڈبل انجن حکومت والی ریاستوں میں اس قانون کو لاسکتی ہے تاکہ اکثریتی طبقہ کی عوام کے اندر مذہبی جنونیت کابھوت سوار کرتے ہوئےاسکا راست فائدہ لوک سبھا انتخابات میں لیا جاسکے چونکہ حکومت کی بے چینی اس بات کی شہادت دے رہی ہیکہ بھاجپا انڈیا اتحاد کی بڑھتی مقبولیت اور راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا نے آر ایس ایس اور بھاجپا کو پریشان کر رکھا ہے اب لڑائی یہاں تک آپہنچی ہیکہ انڈیا اتحاد سیکولرزم کی بقاء کیلئے تگ و دو کررہی ہے اور بھاجپا ہندوتوا کے نفاذ کی آڑ میں اکثریتی طبقہ کو ورغلاتے ہوئے مذہب کی سیاست کو پروان چڑھاتے ہوئے تیسری بار برسر اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ بھاجپا نے لوک سبھا انتخابات کی پوری تیاری کر رکھی ہے آئندہ دوماہ میں الیکشن کمیشن لوک سبھا انتخابات کا شیڈول جاری کرسکتا ہے جبکہ اس سے قبل بھاجپا حکومت متنازعہ قانون کو چھیڑ کر ملک کے ماحول کو بدل کر اکثریت کو اپنی طرف مائل کرنے کی پوری کوشش کرے گی ۔
رام مندر کے افتتاح سے لیکر آئندہ دو ماہ میں اگر اسطرح کے حالات پیدا ہوں تو اپوزیشن انڈیا اتحاد اور اقلیتوں کو چوکس رہتے ہوئے بڑی ہی دانشمندی اور حکمت عملی کو اختیار کرنا چاہیئے چونکہ ہندوتوا سیاست کا یہ منشاء ہوسکتا کہ ان متنازعہ قانون کو پیش کرتے ہوئے اقلیتوں کو ولولہ انگیز بنایا جائے تاکہ بھاجپا فرقہ پرستی کی سیاست کا کارڈ کھیل سکے ابھی تو ہندوتوا کی جانب سے مذہبی سیاسی کارڈ کھیلنے میں شدت پیدا کی جارہی ہے چونکہ آر ایس ایس کے قائد اندریش کمار نے رام مندر کے افتتاح کے دن مسلمانوں کو بھی مساجد اور درگاہوں میں رام کا ورد کرنے کا ایک متنازعہ بیان دیا خیر ایسے بیانات اس ملک کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے یہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہوئے انھیں جوش میں لاکر ہوش کھونے کیلئے دیئے جاتے ہیں تاکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاسکے اور یہ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کرسکے پہلی بات تو یہ کہ ایسے بیانات اور رام مندر کے افتتاح پر بلکہ لوک سبھا انتخابات تک ہوش کو جوش پر فوقیت دیتے ہوئے دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اگر ہم ایسی سیاست اور بیانات کا مقابلہ کرنا چاہتے ہوں تو آنے والے لوک سبھا انتخابات کی رائے دہی میں حصہ لیتے ہوئے اپنا جوش دکھائیں ہندوتوا سے اس سے بہتر مقابلہ کوئی اور نہیں ہوسکتا دوسری بات یہ کہ کانگریس ہو یا انڈیا اتحاد کی علاقائی سیاسی پارٹیاں وہ رائے دہندوں کو پر کشش بنانے کیلئے نرم ہندوتوا چال بازی سے پرہیز کریں بلکہ ڈٹ کر حکومت کی غلط پالیسیوں غلط فیصلوں اور متنازعہ قانون پر اپنی سیاسی قوت صرف کریں اور عوام کو اس سے آگاہ بھی کریں اوریہ سمجھائیں کہ سیکولرزم ہی اس ملک کا بنیادی ڈھانچہ ہے جس کو ایک گلدان میں سجانے کیلئے ہندو مسلم رہنماؤں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں یہی وہ سیکولرزم ہے جو ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو مضبوط ترین بناتا ہے بہر حال آنے والے انتخابات سے ذیادہ مشکل مرحلے آنے والے ایام بھی ہوسکتےجسمیں ہماری دانشمندی اور حکمت کے امتحانات پیش آسکتے ہیں جو ملک کا مستقبل بھی طئے کرسکتے ہیں۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *