[]
حمید عادل
صبر خوش تدبیری ہے اور بے صبری بے سکونی، لیکن اس کو کیا کیجیے کہ بی جے پی کا صبر سے دور دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں… لگتا ہے کسی نے اس کے صبر کے پھل کا درخت ہی کاٹ دیا ہے ۔تبھی تو وہ نا مکمل مندر کا افتتاح انجام دے کر اپنے سیاسی ارمانوں کو مکمل کرنا چاہتی ہے …رام سے پارٹی کی جانے یہ کیسی عقیدت ہے کہ اس نے چار سنتوں کی ناراضگی تک مول لی ہے،جو نامکمل مندر کے افتتاح سے ناخوش ہیں اور جن کا استدلال ہے کہ پی ایم مودی مندر کا افتتاح کریں گے تو کیا وہ تالیاں بجانے کے لیے تقریب میں شرکت کریں گے … تقریباً 52سال قبل فلم ’’ ہرے راما ہر کرشنا ‘‘ میں آنجہانی دیوآنند نے کہا تھا ’’ دیکھو اے دیوانو، تم یہ کام نہ کرو، رام کا نام بدنام نہ کرو ۔‘‘
یہ تو ہوئی سیاست بلکہ ’’ سیاہ ست‘‘ کی بات، ہم ارد گرد نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ صبر ہمارے ہاتھوں سے چھوٹتا جارہا ہے …ہائے وہ بھی کیا دور تھا کہ ’’وہاں پر شکر کرتے تھے جہاں پر صبر مشکل تھا‘‘ اور آج یہ عالم ہے کہ ہم وہاں بھی صبر نہیں کرتے جہاں پر شکر لازم ہے …لیکن فی زمانہ ہم میں ’’ صبر‘‘ کا ’’ص‘‘ بھی پایا نہیں جاتا، بے چینی اور بے صبری ہماری سرشت میں گویاشامل ہوچکی ہے،جس کا ہم قدم قدم پر مشاہدہ کرسکتے ہیں…لفٹ سے نکلنے والا شخص اپنا قدم باہر بھی نہیں رکھ پاتا ہے کہ ہم اپنی ٹانگ اڑا دیتے ہیں… بس اور ٹرین میں سوار ہوتے ہوئے بھی یہی سب کچھ ہوتا ہے ….نجانے کتنے مسافرہماری بے صبری کی بھینٹ چڑھ کر ’’جانا تھا جاپان پہنچ گئے چین سمجھ گئے ناں… کے مصداق چین پہنچ جاتے ہیں …جاپان جانے والا مسافر چین پہنچ جائے تو اسے کس قدر کوفت ہوتی ہے، ہمیں اس سے کیا…ہمارے لیے تو اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ ٹائمنگ بہت معنی رکھتی ہے …ٹائمنگ سے ہی ’’رن ‘‘بنتے ہیںاور ٹائٹنگ سے ہی ’’دن‘‘ بنتے ہیں …
دو ہکلے کسی بات پر آپس میں جھگڑ رہے تھے قریب ہی سے مکان مالک نکلا اور دونوں کو مارنے کے لئے لپکا…دونوں بھاگ کھڑے ہوئے۔
کچھ دور جا کر دونوں رکے…
اور ان میں سے ایک نے کہا: بے ہودہ کمینہ!
دوسرا بولا: اس کو یہاں برابھلا کہنے کا کیا فائدہ وہیں کچھ کہنا چاہئے تھا!
پہلے نے جواب دیا:بولا تو وہیں تھا!مگرنکلا یہاں ہے!
صبر ہے تو تین حرفی لفظ لیکن یہ چار روزہ زندگی کے لیے کسی ’’چارہ گر‘‘ سے کم نہیں ’’صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے ‘‘محاورے سے وہ لوگ بخوبی واقف تھے ،جن کے گھروں میں ہمہ اقسام کے پھلوں کے درخت ہوا کرتے تھے ..یہ وہ لوگ تھے جو صبر کو بھی جانتے تھے اور صبر کے میٹھے پھل سے بھی ان کی پہچان تھی لیکن آج کا انسان خود مٹھاس سے دور ہوچکا ہے ،درختوں سے دور ہوچکا ہے ،صبر سے دور ہوچکا ہے ، آج انسان،انسان سے دو میٹھے بول نہیں کہہ سکتا لیکن میٹھے پھل ضرور چاہتاہے …ویسے بھی آج شوگر کی بدولت لوگوں نے میٹھا کھانا تقریباً ترک کردیا ہے۔ شاید مٹھاس ہمارے دلوں سے نکل کر خون میں شامل ہوگئی ہے۔ پھر بھی میٹھا کسے پسند نہیں’’ کچھ میٹھا ہوجائے ‘‘ کا نعرہ مار کرشوگر کی پرواہ کیے بغیراوٹ پٹانگ دلیلیں دے کر بھی اچھے بھلے لوگ منہ میٹھا کرہی لیتے ہیں:
مولانا محمد علی کا تعلق، رام پور سے تھا۔ایک بار اُن کا جانا سیتا پور ہوا… وہاں میزبان واقف تھے کہ مولانا کا شکر کا پرہیز ہے، اس لئے انہوں نے کھانے کے بعد کہا: ’’مولانا میٹھا تو آپ کھائیں گے نہیں! ‘‘ مولانا بولے:’’بے شک میٹھا میرے لیے شجر ِ ممنوعہ ہے، لیکن سسرال میں میٹھا کھانے سے انکار بھی نہیں کرسکتا۔‘‘میزبان نے حیرت سے پوچھا:’’کیا سیتا پور میں آپ کی سسرال بھی ہے۔‘‘مولانا بولے:’’ارے بھائی، رام پور سے سیتا پور آیا ہوں، آپ کو رام اور سیتا کا رشتہ بھی نہیں پتہ!‘‘
ایک زمانہ تھا جب صبر کا پھل میٹھا ہوا کرتا تھا ، لیکن آج ہم صبر تو کرتے نہیںاور چاہتے ہیں کہ پھل میٹھا ہو…غالباً ہماری بے صبری کی بدولت ہی پھل دن بہ دن اپنی مٹھاس کھوتے جارہے ہیں … جب کہ پھلوں کی ساری مٹھاس بیوپاریوں کی زبان پر آگئی ہے …
چمن بیگ بازار سے گزررہے تھے کہ آم کا بیوپاری آوازیں لگا رہا تھا ’’ زرددودھ پیڑے، چالیس روپئے کیلو ،زرد دودھ پیڑے چالیس روپئے کیلو ۔‘‘ آواز سن کر چمن بیگ دوڑے دوڑے آم کے بیوپاری کے ہاں پہنچے اور احمقانہ سوال داغا:
’’ کیسا کیلو دیے ہیں بھائی؟‘‘
سوال سن کر بیوپاری سمجھ گیا کہ یہ’’ چمن‘‘ ہیں، چنانچہ اس نے ان کا طائرانہ جائزہ لیتے ہوئے کہا ’’ستر روپئے کیلو‘‘ چمن بیگ نے جھجکتے ہوئے کہا ’’ساٹھ روپئے کیلو دو گے؟‘‘
دکاندار نے سرد مہری سے جواب دیا ’’ نہیں !‘‘
’’ کیوں ؟‘‘
’’ کیوں کہ یہ آم ….عام آم نہیں ہیں۔‘‘
’’ مطلب؟‘‘
’’ مطلب یہ کہ بڑے خاص آم ہیں اور ان کی خا ص بات یہ ہے کہ ان کو اپنے روبرو رکھ کر آپ جیسی نیت کریں گے یہ ویسے ہی بن جائیں گے۔‘‘
’’ مثلاً؟‘‘
’’ مثلاً یہ کہ اگر آپ رسال آم کھانا چاہتے ہیں تو رسال آم کھانے کی نیت کیجیے ، یہ رسال آم بن جائیں گے اور اگر انہیں کاٹ کرشاخیں کھانے کا من کرے تو کاٹنے والے آم کی نیت کریں ، اتنا ہی نہیں اگرآپ چاہیں تو ان آموں کو موز کی طرز پر چھلکے اتارکربھی کھا سکتے ہیں ۔‘‘
’’ اچھا….‘‘چمن بیگ کی آنکھیں حیرانگی کے عالم میںکھلی کی کھلی رہ گئیں، انہوں نے اپنی کھوپڑی کھجاتے ہوئے نہایت سادہ لوحی سے پوچھا ’’ تو کیا چھلکے اتارنے کے بعد موزہی کی طرح آم سے بھی گٹھلی برآمد نہیں ہوگی؟ ‘‘
بیوپاری ، چمن بیگ کا اوٹ پٹانگ سوال سن کر پہلے تو سٹپٹایا اور پھر جواب دینے کے بجائے الٹے سوال داغ دیا ’’ پہلے آپ یہ کہیے کہ آپ آم کھانا چاہتے ہیں یا موز؟‘‘
’’ آم کھانا چاہتا ہوں ….ہی ہی ہی ‘‘چمن بیگ بے ساختہ ہنس پڑے۔
’’ تو پھرآم سے گٹھلی ہی برآمد ہو گی۔‘‘
’’ کیسا کیلو دیں گے ؟‘‘
’’کہانا ستر روپئے کیلو مگر آپ کے لیے ساٹھ روپئے کیلو آئیں گے۔‘‘ شاطر اور چرب زبان بیوپاری جھوٹ پر جھوٹ کہتا چلا جارہا تھا۔
’’میرے لیے ساٹھ روپئے کیلو ….؟ تو پھر پانچ کے بجائے دس کیلو دیدو۔‘‘ چمن بیگ نے خوشی خوشی کھلے عام چالیس روپئے کیلو فروخت ہونے والے آم ساٹھ روپئے کیلو خریدلیے اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہوکر گھر لوٹے کہ یہ سودا ان کے لیے نہایت کفایتی رہا۔
دریں اثناء جھلاہٹ کا شکارایک گاہک آیا اور وہ بیوپاری سے شکایتی انداز میں کہنے لگا:
’’ جناب !آپ نے آم ، میٹھے ہونے کا دعویٰ کرکے میرے سر تھونپے تھے لیکن یہ تو بڑے ہی پھیکے ہیں !‘‘
بیوپاری نے چپ چاپ آم واپس لے لیے اور پھربغیر کسی پشیمانی کے شان بے نیازی سے زور دارنعرہ مارا:’’ شوگر فری آم‘‘ سو روپئے کیلو ، ’’ شوگر فری آم‘‘ سو روپئے کیلو ….
اس پرکشش نعرے کا اثر یہ ہوا کہ بے تحاشہ لوگ آم کی بنڈی پر امڈ پڑے۔
آج بیوپاری میں صبر ہے اور نہ گاہک میں تو پھل میٹھے کیسے ہوں گے؟ بیوپاری بخوبی جانتا ہے کہ اس کا پھل میٹھا نہیں ہے اورگاہک بھی خود کو یہ کہہ کر مطمئن کرچکا ہے کہ وہ جو پھل خرید رہا ہے وہ پھیکے ہیں … لیکن بی جے پی کے ’’انتخابی جملے‘‘کی طرح روایتی جملے بازی ہنوزبرقرار ہے ۔ گاہک پھلوں کے بیوپاری سے پوچھتا ہے ’’ آم میٹھے تو ہیں ناں ‘‘ اور بیوپاری برجستہ کہتا ہے ’’ بالکل صاحب! بہت میٹھے ہیں ۔‘‘
بیشتر حضرات صبر کے میٹھے پھل کاقطعی انتظار نہیںکرتے ،آج ایک عاشق کو لفظ صبر سے ہی الرجی ہے ، چنانچہ وہ کہتا ہے :’’آج کل صبر کرو تو پھل کی کہیں اور شادی ہو جاتی ہے۔‘‘ جب کہ شعرا حضرات کے تعلق سے یہ مشہو رہے کہ جیسے ہی وہ کوئی غزل یا نظم لکھتے ہیں، صبر کھو دیتے ہیں…
کسی شاعر کی ایک کمزوری یہ تھی کہ جب وہ کوئی تازہ نظم یا غزل کہتے وہ اسے کسی نہ کسی کو ضرور سنانا چاہتے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ انہوں نے ایک نظم کہی، کئی جگہ گئے مگر اسے سنانے کو انہیں کوئی بھی سامع نہیں ملا۔ آخر کار ایک چائے خانے آئے اور بیرے سے بولے، ’’دو چائے لاؤ۔‘‘ بیرا جب دوچائے لے آیا تو بولے، ‘‘ایک تم اور ایک میں، گھبراؤ مت، یہ پیسے لو… بیٹھو میری غزل سنو۔‘‘
. صبر ہمارے مزاج میں نہیں، اس لیے صبر کا پھل قطعی ہمارا نصیب نہیں…حدیث شریف ہے ’’صبر وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں ہو‘‘ خالق کائنات نے تمام اہلِ ایمان سے تکلیف میں صبر کرنے کی وجہ سے بہت بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:’’بیشک صبر کرنے والوں کو قیامت کے دن بغیر حساب اجر عطا فرمایا جائے گا‘‘(الزمر:10)آپؐ فرماتے ہیں: ’’مسلمان جب بھی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔‘‘آپؐ نے صبر کو ’’روشنی‘‘ کہا ہے۔(سنن نسائی :2439،صحیح) اور ہم ہیں کہ مایوسی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں …
کہتے ہیں کہ صبرکی داد خدا کے ہاتھ ہے … فارسی مقولہ ہے ’’ صبر تلخ است ولیکن بر شیریں دارد‘‘ صبر تکلیف دہ ضرور ہے مگر اس کا پھل میٹھا ہوتاہے … مشہور فلسفی ارسطو نے کہا تھا صبر کڑوا ہوتا ہے لیکن اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے …مگر آج ہم صبر کورخصت کرکے ارمانوں کو گلے لگائے روئے جارہے ہیں…
شاخ ارماں کی وہی بے صبری آج بھی ہے
موجب گریہ ٔشام و سحری آج بھی ہے
احمد عظیم آبادی
۰۰۰٭٭٭۰۰۰