شہید سلیمانی ہمیشہ مسئلہ فلسطین اور القدس کو اپنی جدوجہد کا محور قرار دیتے تھے

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ شہید قاسم سلیمانی نے پوری زندگی مستضعفین کی جنگ لڑی۔ آج مشرق وسطی اور دنیا کے دیگر خطوں میں ان کو عالمی استکبار کے خلاف مقاومت کا نمونہ اور علمبردار سمجھا جاتا ہے۔

فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو طوفان الاقصی آپریشن کے بعد اسرائیل کی کھوکھلی طاقت کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ مبصرین مقاومتی تنظیموں کی کاروائیوں اور کامیابیوں میں شہید قاسم سلیمانی کے کردار کا کھل کر اعتراف کرتے ہیں۔

مہر نیوز نے شہید قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر فلسطین فاونڈیشن پاکستان کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابومریم سے شہید سلیمانی کی زندگی کے حوالے سے گفتگو کی جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔

مہر نیوز: شہید قاسم سلیمانی کی مجاہدانہ زندگی اور مظلومین کے حقوق کے لئے جہاد کے بارے میں کیا کہیں گے؟

صابر ابومریم: شہید جنرل قاسم سلیمانی کی پوری زندگی عالمی استکبار کے مظالم کا شکار مظلوم طبقات کے دفاع میں گزری ہے۔ مظلوموں اور محروموں کے لئے آواز بلند کرنے کی وجہ سے ان کو عوامی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کا اندازہ ان کی تشییع جنازہ کے مناظر سے لگایا جاتا ہے۔ عراق اور ایران کے مختلف شہروں میں ان کا جنازہ تشییع کے لئے لے جایا گیا اور ہر شہر میں لاکھوں کی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔ ہر ایک کی آنکھ اشک بار تھی۔

مہر نیوز: مسئلہ فلسطین کے لئے شہید سلیمانی کی خدمات کے بارے میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟

صابر ابومریم: جنرل قاسم سلیمانی ہمیشہ مسئلہ فلسطین اور القدس کو اپنی جدوجہد کا محور قرار دیتے تھے گویا ان کی زندگی کی اولین ترجیح القدس کی آزادی تھی۔ انہوں نے فلسطینی تنظیموں کو پتھر سے دور سے نکال کر جدید ٹیکنالوجی اور ٹینک شکن میزائل کے دور میں پہنچا دیا تاکہ غاصب صہیونیوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ غزہ اور غرب اردن کی گلیوں اور شاہراہوں پر گرجنے والے ٹینک آج فلسطینی مجاہدین کے میزائل حملوں کے خوف سے غزہ کی طرف قدم بڑھانے سے ڈرتے ہیں۔

مہر نیوز: طوفان الاقصی میں فلسطینی مجاہدین جدید ہتھیار استعمال کررہے ہیں؛ شہید سلیمانی کا اس حوالے سے کیا کردار رہا ہے؟

صابر ابومریم: شہید سلیمانی نے فلسطینی تنظیموں مخصوصا تحریک جہاد اسلامی اور حماس کو نہ صرف جدید قسم کے ہتھیار فراہم کئے بلکہ ان کو مقامی سطح پر ہتھیار بنانے کا ہنر سکھایا۔ ایک دور میں صہیونی فورسز ٹینکوں کے ساتھ حملہ کرتی تھیں تو فلسطینی جوان ان پر پتھر مارکر چھپ جایا کرتے تھے لیکن شہید سلیمانی نے فلسطینیوں کو جدید اسلحوں سے لیس دشمن کے ساتھ برابری کی سطح پر کھڑا کردیا۔ آج دشمن کے جدید ترین ٹینک اور بکتربند گاڑیاں فلسطینی مجاہدین کے حملوں سے محفوظ نہیں ہیں۔

مہر نیوز: فلسطین کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک میں بھی امریکہ اور اسرائیل کے مفادات خطرے کی زد میں ہیں، اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

صابر ابومریم: حقیقت میں فلسطین، یمن، شام، عراق اور لبنان سمیت پورے مشرق وسطی میں مقاومتی تنظیمیں اب متحد ہوکر عالمی استکبار کا مقابلہ کررہی ہیں۔ اسی وجہ سے غزہ پر جارحیت کے فورا بعد یمن، عراق، لبنان اور شام میں مقاومتی تنظیموں نے شدید ردعمل دکھایا۔ اب امریکہ اور اسرائیل بیک وقت کئی محاذوں پر جنگ کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ بھی شہید سلیمانی کا فلسفہ ہے۔ شہید کا عقیدہ تھا کہ القدس کی آزادی اور استکبار سے جنگ میں کامیابی کا واحد راستہ آپس کا اتحاد ہے۔ انہوں نے عراق اور شام میں مقاومت کو اس قدر مضبوط بنایا کہ امریکی اعلی حکام دن کے اجالے میں عراق کا سفر کرنے سے خوف محسوس کرتے تھے اسی لئے رات کے اندھیرے میں دورہ کرکے اپنے فوجیوں سے ملاقات کرتے تھے۔ آج مقاومتی تنظیموں باہمی یگانگت اور اتحاد کے ساتھ اپنا فیصلہ خود کرتی ہیں چنانچہ طوفان الاقصی بھی فلسطینیوں کا اپنا فیصلہ تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس آپریشن میں مرکزی کردار شہید سلیمانی ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے حماس اور دیگر مقاومتی کے درمیان رابطہ پل کا کردار ادا کیا اور تمام مقاومتی تنظیموں کو القدس کے محور پر جمع کردیا اسی وجہ سے فلسطینی رہنماوں نے ان کو شہید راہ قدس کا لقب دیا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *