[]
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کے دن مرکز اور 11 ریاستوں بشمول اترپردیش اور مغربی بنگال سے مفادِعامہ کی ایک درخواست (پی آئی ایل) پر جواب مانگا کہ اِن ریاستوں کے جیل مینول جیلوں میں ذات پات کی تفریق کو بڑھادا دیتے ہیں۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ‘ جسٹس جے بی پاڑدی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بنچ نے وکیل ایس مرلیدھر کی اس بات کا نوٹ لیا کہ 11 ریاستوں کے جیل مینولس میں جیلوں کے اندر قیدیوں کو کام کی تقسیم میں ذات پات کی بنیاد پر بھیدبھاؤ کیا جاتا ہے۔
بعض ڈی نوٹیفائیڈ قبائل اور آدی مجرموں سے بھیدبھاؤ کیا جتا ہے۔ عدالت نے مرلیدھر سے کہا کہ وہ ان ریاستوں کے جیل مینول یکجا کریں۔ 4 ہفتے بعد سماعت ہوگی۔
سپریم کورٹ نے مرکزی وزارت ِ داخلہ اور دیگر کو نوٹس جاری کردی۔ مہاراشٹرا کے کلیان کی سکنیہ شانتا نے مفادِ عامہ کی درخواست داخل کی۔
درخواست گزار نے کہا کہ ذات پات کا بھیدبھاؤ نہ صرف بیارکس کے الاٹمنٹ بلکہ کام کی تقسیم میں بھی ہوتا ہے۔ سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے جواب میں کہا کہ میں نے ذات پات کی بنیاد پر بھیدبھاؤ کی بات نہیں سنی۔
قیدیوں کو عام طورپر 2زمروں میں (زیرسماعت اور سزا یافتہ) میں بانٹا جاتا ہے۔ 11 ریاستوں میں اترپردیش اور مغربی بنگال کے علاوہ مدھیہ پردیش‘ آندھراپردیش‘ تلنگانہ‘ پنجاب‘ اوڈیشہ‘ جھارکھنڈ اوردیگر شامل ہیں۔