[]
مسلمانوں میں تقسیمِ ترکہ احکامِ الٰہی کا پابند ہے جس کی صاف صاف اور واضح طور پر ہدایت کی گئی ہے۔ اور یہ بھی حکم ہے کہ جو بھی اللہ تبارک تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے ان حدود کی خلاف ورزی کرے گا اس کی سزا دائمی عذابِ جہنم ہے۔ قرآنِ کریم میں دائمی عذابِ جہنم کے حقدار کفار‘ مشرکین اورمنکرین ہیں۔ لیکن خطا کار مسلمانوں کو سزائے جہنم کی وعید صرف ایک بار ہی کی گئی جو اسی مضمون سے متعلق ہے۔ لیکن اس وعید کے بعد اکثر صورتوں میں تقسیم ترکہ کے عنوان پر ظلم و انصافیاں ہوتی ہی رہتی ہیں اور ان کی مسلسل شکایات آتی ہی رہتی ہیں۔ اس ضمن میں محرومین میں ماں ۔ بیٹیاں۔ بہنیں ہوتی ہیں جن کا حصۂ وراثت قرآن نے مختص فرمایا ہے۔
کئی شکایتوں میں سرِ فہرست ایک ایسا واقعہ ہے جو بہت ہی ناانصافی اور ظلم پر مبنی ہے۔ اس کیس میں ایک بیوہ کے ساتھ بہت ہی ظلم ہوا اور سارا ترکہ متوفی کے بھائیوں نے ہڑپ کرلیا۔ ایک صاحب ملازم سرکار تھے۔ انہیں پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ بیوی کا انتقال ہوگیا اور کچھ دنوں بعد وہ وظیفہ پر ملازمت سے علاحدہ ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد جب ان کی عمرِ شریف62 سال ہوئی تو ان کو خیال آیا کہ اب دوسرا نکاح کرلینا چاہیے۔ صاحبِ موصوف بہت اچھی تنخواہ پر مامور تھے اور وظیفہ بھی ایک لاکھ کے قریب آتا تھا۔ علاوہ ازیں کئی مکانوں اور دوکانوں کے مالک تھے اور کچھ پلاٹس بھی ان کے نام پر تھے۔ تمام جائیدادوں کی مجموعی قیمت 25 کروڑ روپیوں سے زیادہ تھی جو سرکاری قیمت کے مطابق ہے۔ انہوں نے وہ ایک بیوہ سے شادی کی ۔ پندرہ سال قبل اس کے شوہر کا انتقال ہوا تھا اور وہ لاولد تھی۔ اس کا تعلق ایک دیندار گھرانے سے تھا ۔
وہ صوم و صلواۃ کی پابند تھی اور شرعی مسائل سے بخوبی واقف تھی اور ایک مدرسہ میں معلمہ کے فرائض انجام دے رہی تھی۔ موصوف نے شادی کے وقت بلکہ قبل اس کے والدین سے معاہدہ کیا کہ ان کی ہونے والی بیوی صرف میرے مرنے کے بعد وظیفہ کی حقدار ہوگی اور میری جائیداد میں اس کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ یہ معاہدہ ہونے کے بعد شادی ہوئی۔ وہ خاتون بھی اپنے گھر سے ٹھیک ٹھاک تھی اور اس کے گھر میں کوئی تنگی نہ تھی۔ اس کے ماں باپ کھاتے پیتے لوگ تھے گو کہ بہت زیادہ دولتمند نہ تھے۔
اب شادی کے بعد بے چاری کا رزق تنگ ہوگیا کیوں کہ اس کے موظف شوہر انتہا درجہ کے کنجوس تھے۔ کنجوسی کا یہ عالم کہ سارا دل باورچی خانہ میں لگا رہتا اور تیل ‘ دال ‘ چاول اور دیگر اشیائے خوردنی کا پورا پورا حساب رکھتے۔ اگر ایک مہینہ میں وقت سے قبل تیل ختم ہوگیا تو سارے گھر کو سر پر اٹھالیتے۔ اخراجات کے لئے ایک پیسہ بھی نہ دیتے۔ ان کو اولاد نہ تھی البتہ ایک بھائی اورایک بہن تھے جو ان کے قریبی ورثاء تھے ۔ بھائیوں سے ان کا رابطہ نہیں تھا۔ ہر مہینہ آنے والے کرایہ کو بینک میں جمع کردیتے۔ ہفتہ میں صرف ایک بار پاؤ کلو گوشت لے آتے اوراس کے دو سالن پکا کر ریفریجریٹر میں رکھ دیتے۔ بے چاری پیٹ بھر کھانے کو محتاج ہوگئی تھی۔ بدمزاجی کا یہ عالم کہ بات بات پر بگڑجاتے۔ کوئی بھائی بہن اور رشتہ دار ان سے ملاقات کے لئے نہیں آتا تھا۔
اچانک 2021ء میں کورونا وائرس وبا پھٹ پڑی ۔ لوگوں نے علاج کیلئے دواخانہ میں شریک ہونے کی رائے دی لیکن صرف پیسہ خرچ ہونے کے اندیشے سے شریکِ دواخانہ نہ ہوئے اور آخر کارِ تنفس کی ڈور ٹوٹ گئی اور وہ جاں بحق ہوگئے۔
تین دن بعد بھائی اور بہن گھر آدھمکے اور الماری کی تلاشی شروع ہوئی۔ کیش رقم بہت کم نکلی۔ پہلی بیوی کے تمام زیورات فروخت کرکے ایک پلاٹ خرید رکھا تھا۔ بینک بیلنس لاکھوں میں تھا۔ ساری زندگی کی کمائی جائز یا ناجائز صرف جائیدادوں کی خریدی میں گزری تھی۔ تمام جائیدادوں کے کاغذات گھر سے نکلے۔ بینک پاس بک میں چند لاکھ روپیوں کا بیلنس تھا۔ کوئی بینک لاکر نہیں تھا۔ جائیدادوں کے کاغذات علاحدہ فائلس میں رکھے ہوئے تھے جن کی قیمت پچیس کروڑ روپیوں سے زائد تھی۔ انسان بھی عجیب چیز ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ زندگی دائمی ہے۔
زندگی میں کبھی حج نہیں کیا تھا اور شائد دل میں کوئی ایسی خواہش بھی نہ تھی ورنہ دوسری شادی کے بعد بیوی کے ساتھ ضرور فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے نکل پڑتے۔ شائد یہ سعادت قسمت میں نہ تھی۔ ساری زندگی صرف جائیدادوں کے حصول میں گزری۔ جائیدادوں سے محبت کا اندازہ اس معاہدہ سے کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے اپنی دوسری بیوی کے حق کو صرف فیملی پنشن کی حد تک رکھا اور جائیدادوں میں بیوہ کے حصہ کو بالکل فراموش کرگئے۔
اب بھائی بہن کے ہاتھوں میں ساری جائیدادوں کے کاغذات ہیں اور کرایہ بھی وہی وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے رہائشی گھر پر قبضہ کررکھا ہے۔ الماری سے جو کاغذات برآمد ہوئے ان میں ایک اقرار نامہ بھی تھا جس میں ہونے والی بیوی سے لکھوایا گیا تھا کہ میں آپ کے مرنے کے بعد صرف پنشن کی حقدار ہوں گی اور مجھے جائیداد میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ اس اقرار نامہ کی اساس پرمرحوم کے بھائی بہن کہہ رہے ہیں کہ آپ گھر خالی کردیں اور پنشن کی کارروائی کرکے پنشن پر اکتفا کریں جو شائد پچاس ہزارروپیہ ماہانہ سے کم نہ ہوگا۔
ایسی صورت میں مظلومہ بیوہ کے والد اور والدہ نے استفسار کیا ہے کہ مرحوم کے اثاثہ جات میں ان کی بیٹی کا حق کتنا بنے گا اور اس کے حصول کے لئے کیا کرنا ہوگا۔
یہ ایک بہت ہی تکلیف واقعہ ہے۔ ساری زندگی یعنی شادی کے دس سال بعد تک وہ مصیبت جھیلتی رہی اور نیم فاقہ کشی اور ہر نعمت سے محروم رہی۔ زندگی بھر شوہر نے ایک روپیہ بھی نہیں دیا اور نہ ہی کوئی کپڑے کا جوڑا خرید کردیا۔ جہیز میں لائے ہوئے کپڑوں پر گزارہ کرتی اور کبھی والدین بھی کچھ کپڑے بنادیتے۔ لیکن اس مظلوم کو پریشان یا بدگمان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ازروئے شرع شریف اور ملکی قانون مرحوم کی تمام جائیدادوں اور بینک بیلنس میں اس کا حق ایک چوتھائی مسلمہ ہے۔ اس اقرار نامہ کی کوئی شرعی یا قانونی اہمیت نہیں کیوں کہ ترکہ کی تقسیم بعد وفات ہوگی اور جو بھی جائیداد و مال وزر مرحوم چھوڑے اس مظلومہ کا حق ایک چوتھائی ہے کیوں کہ مرحوم لاولد تھے۔ مابقی تین چوتھائی کے تین حصے ہوں گے۔ دوبھائی کواور ایک بہن کو ملے گا۔ گویا تقسیم 2:1:1 کے تناسب میں ہوگی۔ اس مقصد کے حصول کے لئے تقسیم ترکہ کا مقدمہ دائر کرنا ہوگا۔ اس سے قبل شائد ایک قانونی نوٹس ظالم بھائی اور بہن کے ہوش ٹھکانے لادے گی۔ اگر وہ اس تقسیم پر رضامند ہوں تو ٹھیک ہے ورنہ سوائے مقدمہ دائر کرنے کے کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہ جاتا ۔
کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا!
فریبِ سود و زیاں لا الہ الا اللہ
یہ مال و دولت دنیا یہ رشتۂ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لاالہ الا اللہ
اضلاع تلنگانہ اور خصوصاً حیدرآباد کے مسلم خاندانوں میں ایسی ناانصافیاں بڑے پیمانے پر عمل ہورہی ہیں۔ ایک جانکار صاحب جو ایک بیٹے اور چھ بیٹیوں کے باپ اور صاحبِ جائیداد تھے ‘ نے صرف اپنے ایک بیٹے کے نام ساری جائیدادیں کردیں اور تمام چھ بیٹیوں کو یکسر محروم رکھا۔ یہ بہت بڑی ناانصافی ہے جس کی جوابدہی لازم ہے۔ اضلاع اور تعلقہ سطح پر یہ بات عام ہے کہ شادی ہوچکی اس کے بعد بیٹی کا حق کچھ بھی نہیں۔ بعض تو اپنی بیوی کو تک محروم کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کی سیول عدالتوں میں تقسیم ترکہ کے مقدمات کی بھرمار ہے۔ ایسا عمل بہت بڑا گناہ ہے۔ تعبیر کیا جائے گا جس کی اوپر کی سطور میں وضاحت کی گئی ہے۔ بہنوں کو تھوڑی بہت رقم ادا کرکے ان سے کچھ دستاویزات لکھائے جاتے ہیں حد تو یہ ہے کہ جب متروکہ جائیداد کو بیٹے فروخت کرتے ہیں تو بہنوں کو بطورِ گواہ بناتے ہیں تاکہ آئندہ کسی وقت بھی وہ مطالبہ نہ کرسکیں کیوں کہ رجسٹر شدہ بیع ناموں پر ان کے دستخط ہوتے ہیں۔
برادرانِ اسلام ایسی ناانصافیوں سے باز آجائیں اور احکاماتِ الٰہی کی سختی کے ساتھ پابندی کریں۔