[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک- آذر مہدوان: غزہ کی جنگ نے اس حقیقت کو بر ملا کیا کہ بعض اسلامی ممالک صرف فلسطینی نظریات کے حامی ہونے کا دعوی کرتے ہیں جب کہ صیہونی حکومت کے ساتھ خفیہ طور پر تعلقات کو جاری رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل کے غزہ کی پٹی پر حملوں کے جواب میں عرب اور مسلمان حکومتوں نے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔
ان حالات میں ہم نے صرف اسلامی جمہوریہ ایران کو یورپی اور اسلامی حکومتوں کے حکام کے ساتھ جنگ بندی پر عمل درآمد کے لئے ملاقاتیں کرتے دیکھا اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں سرگرم عمل پایا۔ حال ہی میں تہران نے فلسطین کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کی ہے جس میں 50 سے زائد ممالک کے اعلی سیاسی حکام اور دانشوروں نے شرکت کی۔
اس کانفرنس کے موقع پر مہر نیوز ایجنسی نے ترک وطن پارٹی کے سربراہ اور 2018 میں ترکی کے صدارتی امیدوار “ڈوگو پرنسیک” کے ساتھ ایک انٹرویو کیا، جس کی تفصیل ذیل میں دی گئی ہے:
مہر نیوز؛ کیا غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جارحیت کو جنگی جرائم کہا جا سکتا ہے؟ اس جنگی جارحیت کی خصوصیات کیا ہیں؟
جی ہاں، میں نے انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں تین مقدمے جیتے ہیں اور میں نے سوئس پرنزیک کے مقدمات جیتے ہیں۔ اس وجہ سے میں جنگی جرائم اور نسل کشی کی قانونی جہتوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔
ایک سیاست دان کی حیثیت سے کہ جس نے تین بین الاقوامی قانونی مقدمات جیتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ اسرائیل کے قاتل حکمران جو کچھ کر رہے ہیں وہ درحقیقت ایک منظم “نسل کشی” ہے۔
دوسرے لفظوں میں 1948 کے اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کے مطابق اسرائیل صحیح معنوں میں نسل کشی کے جرم کا مرتکب ہوا ہے۔
لہذا فلسطینی عدالت اس جنگی جرم کی تحقیقات کر سکتی ہے اور اس کے مرتکب افراد کو سزا سنا سکتی ہے کیونکہ غزہ میں نہ صرف جنگی جرائم بلکہ نسل کشی بھی ہو رہی ہے۔
مہر نیوز؛ بین الاقوامی قانونی ادارے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے جرائم کے سامنے خاموش اور غیر فعال کیوں ہیں؟
کیونکہ وہ سامراج کے زیر کنٹرول ہیں۔ درحقیقت وہ سامراجی تنظیمیں ہیں جنہیں ہم بین الاقوامی اداروں کے نام سے جانتے ہیں۔ ہمیں افریقی، ایشیائی اور جنوبی امریکی ممالک کے عنوان سے بین الاقوامی ادارے تشکیل دینے چاہئیں۔ مثال کے طور پر اگر ان کے پاس یورپی عدالت برائے انسانی حقوق ہے تو ہم انسانی حقوق کی ایشیائی عدالت قائم کر سکتے ہیں۔
یہ ایک سوال بھی ہے کہ ایشیائی ممالک متحد ہو کر ایشیائی انسانی عدالت کیوں نہیں قائم کرتے؟ اگر ہم اپنے بین الاقوامی ادارے بنا لیں تو سامراجی ممالک سے وابستہ اداروں کے بارے میں شکایت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
مہر نیوز ؛ اسرائیل سے کھلم کھلا یا خفیہ طور پر بعض اسلامی ممالک کی وابستگی کی وجہ کیا ہے؟
اس کی وجہ ان ممالک کے حکمرانوں کا امریکہ کے ساتھ تعاون ہے۔ بدقسمتی سے بعض اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا یورپی اور امریکی حکومتوں کے ساتھ گہرا تعاون ہے۔ اس قسم کی سیاست سے وہ اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکہ خود کو غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسرائیل امریکہ کی شہ کے بغیر اپنے حملے جاری نہیں رکھ سکتا تو امریکہ عالمی رائے عامہ کا دباؤ تو قبول کرتا ہے لیکن غزہ جنگ کی حمایت سے دستبردار کیوں نہیں ہوتا، اس وجہ کیا ہے؟
امریکہ گریٹر مڈل ایسٹ منصوبے کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔ اس کا مطلب جغرافیائی حدود کو تبدیل کرنا اور 20 سے زائد مسلم ممالک کی حکومتوں کو تبدیل کرنا ہے۔ امریکیوں نے 2000 کے اوائل میں یہ مسئلہ اٹھایا۔ دوسرے لفظوں میں مشرق وسطیٰ پر اثر انداز ہونے کے امریکہ کے منصوبوں پر غور کرتے ہوئے واشنگٹن اسرائیل کی حمایت کرتا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکہ ایک شکست خوردہ طاقت ہے۔
امریکہ نے افغانستان، شام اور مغربی ایشیا کے دیگر حصوں پر حملہ کیا لیکن ناکام رہا اور ایران کو شکست نہ دے سکا۔ واشنگٹن ترکی کو تقسیم کرنا چاہتا تھا لیکن ناکام رہا۔ امریکی ڈالر کا راج ختم ہو رہا ہے۔ اس لیے امریکی تسلط کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اب ہمارے سامنے ایک ابھرتا ایشیا ہے کہ جہاں کے ستم دیدہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک اب اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ دنیا کی تقدیر پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
مہر نیوز؛ غزہ کی جنگ کے بعد ہم ترک عوام کے احتجاج کو دیکھتے ہیں، خاص طور پر انسرلک بیس کے سامنے۔ کچھ ترک سیاست دانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ Incirlik اور Korcic اڈوں کو بند کر دینا چاہیے، آپ کی رائے کیا ہے؟
ترکی کی حزب وطن کے طور پر ہم نیٹو میں سویڈن کی رکنیت کے ساتھ انقرہ کی حکومت کے معاہدے کو غلط سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب ہے نیٹو کے مشرق اور شمال میں توسیع پر رضامندی، جس سے ترکی کی سلامتی کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ ترکی کی ہمسایہ ممالک سے بے وفائی کی علامت ہے۔
انسرلک اور کورسک اڈے ہمیشہ ترکی کے خلاف بغاوتوں میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔
ترکی کی 2016 کی ناکام بغاوت کا انتظام Incirlik بیس کے ذریعے کیا گیا تھا اور آج Incirlik سے اڑان بھرنے والے کارگو طیارے قبرص کے جنوبی حصے سے اسرائیل کو فوجی ہتھیار پہنچاتے ہیں۔ ہم بطور وطن پارٹی ان کے خلاف لڑ رہے ہیں ہم 30 دسمبر کو انسرلک بیس کے سامنے ایک بڑا جلسہ کریں گے۔
یہ مارچ امریکن قونصلیٹ سے شروع ہوگا اور 10 کلومیٹر کا راستہ طے کرنے کے بعد انسرلک کے سامنے ایک بڑا جلسہ کیا جائے گا۔ ہم جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی سے ایک ایسی پالیسی چاہتے ہیں جو ہمارے ملک کی آزادی اور علاقائی سالمیت کو یقینی بنائے اور دوست ممالک بالخصوص ایران، عراق، شام اور روس کے ساتھ ہم آہنگی کے لئے موثر اقدامات کرے۔