ذرا سی آنچ کیا لگی کہ موم سا پگھل گیا

[]

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی

پارلیمنٹ میں ہوئے حالیہ واقعات کے پس منظر میں اگر اپوزیشن ارکان یہ کہتے ہیں کہ
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
تو غلط نہیں ہے۔ پارلیمنٹ پر دہشت گرد حملے کے 22سال بعد یعنی 13؍ڈسمبر کو ہوئی سیکوریٹی کی کوتاہی کے خلاف احتجاج کرنا بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظروں میں جرم ہوگیا ہے۔ حکومت کے آقا نریندر مودی کے حکم پر ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ 143 ارکان کو ایوان سے معطل کردینا کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں ہے۔ جمہوریت میں سوال کرنا ، ارکان پارلیمنٹ کا آئینی حق ہے۔ اس حق کو چھین لینا ایک طرح کی بربریت ہی ہوگی۔ مودی سرکار مطلق العنان ہوگئی ہے۔ ہر طرف سے یہ سرکار جمہوریت کو پامال کررہی ہے۔ تمام اداروںکو کھوکھلا کرنے کے بعد مودی اور ان کے حواری پارلیمنٹ کو بھی بے انتہا کمزور کرچکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں جمہوریت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ اگر 2024 کے چناؤ میں اس ظالم سرکار کو اٹھا کر پھیکا نہ گیا تو یہ بات نہ صرف مادر وطن کے لئے بلکہ امن وامان چاہنے والے عالم کے لئے بھی بے حد خطرناک ثابت ہوگی۔ مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کے باوجود مودی اور شاہ کی جوڑی انڈیا الائنس سے بے حد خوف زدہ ہے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے تاکہ اس بلاک کو توڑ پھوڑ کے ذریعہ کمزور کردیا جائے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ای ڈی اپوزیشن کے اہم قائدین کے خلاف کمر بستہ ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ای ڈی کے سربراہ نے اپنے تمام ماتحتین کو ہدایت دی ہے کہ کوئی بھی رخصت پر نہ جائیں کیونکہ بڑے پیمانے پر اپوزیشن قائدین کو سمن کے ذریعہ ہراساں کیا جاسکے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ بہت سارے لیڈرس گرفتار کئے جائیں گے اور انہیں جیلوں میںبھی ٹھونسا جاسکتا ہے تاکہ انہیں مرکز کے اشارے پر کام کرنے کے لئے مجبور کیا جاسکے۔ادھر اپوزیشن کے تمام قائدین جن میں کیجریوال، ممتا بنرجی، شیبھو سورین، لالو پرساد یادو، تیجسوی یادو، اسٹالن اور اکھلیش یادونے سر سے کفن باندھ لیا ہے اور وہ یہ عزم کئے ہوئے ہیں کہ کسی بھی حالت میں سر کٹائیں گے لیکن سر نہیں جھکائیں گے۔ کہا جارہا ہے کہ جب لوک سبھا چناؤ ہوں گے تب کچھ اپوزیشن قائدین جیل میں رہ کر بھی چناؤ لڑ سکتے ہیں۔ گو دی میڈیا یہ پروپگنڈہ کررہا تھا کہ انڈیا بلاک میں زبردست گھمسان ہوگا اور کوئی بھی پارٹی سیٹوں کے بٹوارے کے مسئلے پر ایک جٹ نہیں ہوپائے گی۔ تمام ممتاز قائدین کا یکجا ہونا اور پھر اس میں یہ اعلان کردینا کہ وزیراعظم کا انتخاب لوک سبھا کے چناؤ کے بعد اتفاق رائے سے عمل میں آئے گا۔ اپوزیشن کا اتحاد اور ان کے پاس ایثار و قربانی کے جذبے نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی نیند اڑادی ہے۔ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ انڈیا بلاک میں اتحاد نہیں ہوگا جو اس کی خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔بی جے پی اس اعلان سے بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے کہ اگلے دو ہفتوں کے اندر اپوزیشن اپنے امیدواروں کا انتخاب کرلے گا۔ سیاسی ماہرین نے اس بات کی گیارنٹی دی ہے کہ اگر بی جے پی کے مقابل اپوزیشن کا صرف ایک امیدوار ہو تو دنیا کی کوئی طاقت بی جے پی کو شکست فاش سے بچا نہیں سکتی۔ 2019کے چناؤ میں بی جے پی کو لگ بھگ 38 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ منقسم اپوزیشن کے حصے میں 62 فیصد ووٹ آئے تھے۔ اگر بی جے پی اور پانچ فیصد زائد ووٹ 2024 میں لیتی ہے تب بھی اپوزیشن اتحاد کو لگ بھگ58 فیصد ووٹ مل سکتے ہیں۔ ساری دنیا کی نگاہیں 2024 میں ہونے والے لوک سبھا کے چناؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ملک میں اس وقت بے شمار مسائل موجود ہیں جس میں خاص طورپر بیروزگاری ، مہنگائی اور غربت قابل ذکر ہیں۔ ملک کو ایک نئی جست لگانا ہے تو حکومت کی تبدیلی ناگزیر ہے۔ اپوزیشن کے لئے کرویا مرو جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ سیاسی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ جنوبی ہند میں بی جے پی کا انتہائی کمزور مظاہرہ ہوگا جبکہ اسے مغربی بنگال ، بہار اور مہاراشٹرا میں زبردست ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔ کیونکہ ان تین ریاستوں میں ہندوتوا لوگوں کو متاثر نہیں کرسکے گی۔ ان ریاستوں میں ان کا وقار اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ ریاستیں گجرات لابی کے سخت خلاف ہیں۔ اور اسی پس منظر میں یہاں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ حالانکہ کانگریس کو تین ریاستوں میں یعنی مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں شکست اٹھانی پڑی لیکن وہ لوک سبھا کے چناؤ میں بہتر مظاہرہ کریں گی کیونکہ بی جے پی کے مد مقابل ایک بہترین متبادل رائے دہندوں کے سامنے موجود ہے۔ انڈیا بلاک کی جیت یقینا ہندوستان میں معدوم ہوتی ہوئی جمہوریت کو مستحکم کرے گی۔ سیاسی ماہرین نے محسوس کیا کہ اپوزیشن کے لیڈروں کی باڈی لینگویج مضبوط دکھائی دے رہی تھی وہ ایک دوسرے کی کاٹ میں ہرگز نہیں تھے بلکہ بے انتہا سمجھ بوجھ کے ساتھ بات چیت کررہے تھے۔ ممتا بنرجی نے ملکارجن کھرگے کو وزیراعظم کے طورپر پیش کرنے کی بات کی تو انتہائی انکساری کے ساتھ کھرگے نے کہا کہ لوک سبھا کے چناؤ کے جیتنے کے بعد وزیراعظم کا فیصلہ ہوگا۔ سیاسی ماہرین بی جے پی کو خبردار کررہے ہیں کہ وہ اپوزیشن کو گرفتار کرتی ہے تو اس سے حزب اختلاف طاقتور ہوگا اور عوام کی ساری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوگی جو بی جے پی کی شکست میں بدل سکتی ہے۔ اس دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کا ایک اور جملہ منظر عام پر آیا ہے جہاں یہ کہا گیا کہ ساڑھے چار سو روپئے میں Cooking Gas Cylinder فراہم نہیں کیا جائے گا۔ حالانکہ اسمبلی چناؤ کے دوران بی جے پی نے اپنے مینو فیسٹو میں یہ اعلان کیا تھا کہ یہ Cookng Gas Cylinder ساڑھے چارسو میں فراہم کئے جائیں گے لیکن جیت کے کچھ ہی دنوں بعد اس طرح کے فیصلے کا سامنے آنا پارٹی کی مجہول قیادت کا ایک اور ثبوت ہے۔ تاریخ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو ایک تاریک باب کی حیثیت سے دیکھا جائے گا۔ پارٹی جمہوری انصاف سے محروم ہوگئی ہے۔ بھاجپا میں اب نہ تو داخلی جمہوریت باقی بچی ہے اور نہ ہی خارجی۔ ہوسکتا ہے کہ بی جے پی ایک بڑی شکست کے بعد ہی سدھرے گی۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ہم یہ کہہ سکیں گے کہ
کہاں تو بات کررہا تھا کھیلنے کی آگ سے
ذرا سی آنچ کیا لگی کہ موم سا پگھل گیا



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *