جی ہاں میں امام ہوں!

[]

محمد ابراہیم خلیل سبیلی
امام وخطیب جامع مسجد غوثیہ، حیدرآباد

جی ہاں میں امام ہوں۔ وہی امام جسے لوگ مسجد کاایک ادنی ساخادم سمجھتے ہیں۔ سماج میں میرا کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہے۔میرے وجود کو مسجد کی چہار دیواری تک محدود کردیاگیا ہے۔ مسجد سے باہر نکلنااور بازاروںمیں جانا میرے لئے گوارہ نہیں کیا جاتا۔ دوکانداری اور کاروبارمیرے لئے بہر صورت نا پسند کیا جاتا ہے۔ مذہبی مسائل میںمجھ سے کم مشورہ لیا جاتاہے، البتہ مسلکی اختلافات کو لے کرجب چاہے مجھے عتاب کا شکاربنایا جاتا ہے۔ مصلیوں سے لیکرمتولی تک اور ارکان کمیٹی سے لیکر صدور تک سب لوگ مجھے پریشان کرتے ہیں۔

چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ کو لیکر لوگ مجھ پر آنکھیں نکالتے ہیں۔ جماعت کے وقت سے کچھ تاخیرہوجائے تو مجھے ترچھی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ نماز کچھ لمبی یا کبھی مختصر ہوجائے تومیرے خلاف چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ بیان میں اوامر کے بجائے نواہی پر بولنا خود اپنے پیروں پر کلہاڑی چلانے کے مترادف ہے۔ وضع قطع کو موضوع سخن بناؤںتوجوان نسل دشمن ہوجاتی ہے۔رہن اور سود کے خلاف لب کشائی کروں تو متعلقہ اصحاب ناک بھنؤں چڑھاتے ہیں۔ نکاح اور ولیمہ سادگی سے کرنے کی دعوت دوں توقوم کے مالدار میرے خلاف کھڑے ہوجا تے ہیں۔

زیارت و چہلم کے کھانے پر مجھے یاد رکھا جاتا ہے لیکن نکاح کے چھوارے اور ولیمہ کے کھانے پر مجھے یکسر فراموش کردیا جاتا ہے۔بچہ کی پیدائش پر اذان اور قبرپر فاتحہ کیلئے مجھ کوبلایاجاتاہے، لیکن میرے اوقات و عزت کی کسی کوپرواہ نہیں ہوتی۔ جماعت پنجگانہ اورخطبہ میں میری حاضری بر وقت لازمی ہے لیکن مصلیوں اور مقتدیوں کیلئے کوئی وقت متعین نہیں ہے۔ بیان قبل از وقت ختم ہوجائے تو کہا جاتا ہے امام صاحب آج جلدی میں ہیں اور کبھی تاخیر ہوجائے تو کہا جاتا ہے بیان کے علاوہ ہمیں اور بھی کام ہیں۔ خود کی نمازوں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی لیکن فکر اس بات کی ہے کہ امام صاحب نے سنتیں ادا کی یا نہیں…؟

یہ سب کچھ صحیح اور درست ہے۔لیکن میں کہتا ہوں یہ آدھی بلکہ بعید از حقیقت باتیں ہیں۔ لوگ نہیںجانتے کہ میرا مقام و مرتبہ کیاہے؟ سچ تو یہ ہے کہ اسلام نے میرے مرتبہ کو بہت بلند کیا ہے۔ میرے عہدے کو محترم ومکرم بنایا ہے۔ مجھے خلیفہ رسول ہونا کا شرف حاصل ہے۔ میں امام المسلمین ہوں، فخر آدمیت ہوں، زیب محراب و منبر ہوں، رونق مساجد و محافل ہوں۔ بزرگوں سے لیکر انبیاء تک سب نے میرے عہدے کو قبول و پسند کیا ہے۔

شریعت نے مجھے لوگوں کی نماز کا ضامن بنایا ہے۔ایسا ضامن کہ میرے بغیر کسی کی نمازمکمل نہیں ہوتی۔ میں جماعت کے وقت سے کچھ تاخیر ہوجاؤں تو شریعت نے میرا انتظار کرنے کا حکم دیا ہے۔ میرا درجہ اس قدر بلند ہے کہ میں نمازکیلئے کھڑا ہوتا ہوں تولوگ میری متابعت میں صف آرا ہوتے ہیں۔ میں تکبیر تحریمہ کہتا ہوں تو لوگ نماز میں شامل ہونے کی جلدی کرتے ہیں۔ میں قرآت کرتاہوں تو وہ خاموشی سے سنتے ہیں۔میں سجدہ کرتا ہوں تو وہ بھی سجدہ کرتے ہیں۔ میںسلام پھیرتا ہوں تو وہ بھی سلام پھیرتے ہیں۔ اور جب میں دعا کیلئے ہاتھ اٹھاتا ہوں توسب کے سب دست بدعا ہوجاتے ہیںاور میری دعا پر آمین کہتے ہیں۔

اسلام نے مجھے اتنا غلبہ عطا کیا ہے کہ میرے جھکنے (رکوع)سے پہلے جھکنے کی اور میرے اٹھنے (قیام) سے پہلے اٹھنے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔ اس کے باوجود کوئی ایسا کرتا ہے تو احادیث میں اس کیلئے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ جب میں منبر سے آواز دیتا ہوں تو لوگ گوش بر آواز ہوکر سنتے ہیں۔ جب میںتوحید کو موضوع بناتا ہوںتو شرک کے ایوانوں میں کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔

جب میںرسالت پرتقریر کرتاہوں توقادیانیت کے محلوں میں زلزلے آجاتے ہیں۔ اورجب میں سیرت صحابہ اور اہل بیت اطہار پر زبان کھولتا ہوں تو کوفیوں اور یزیدیوں کو پسینہ آجاتا ہے۔ اور جب میںفضائل ومسائل پر بحث کرتاہوں تو زمانے کے رسم و رواج ہوا میں اڑنے لگتے ہیں۔پھر لوگ شرک سے توحید، قادیانیت سے رسالت اور جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی کی طرف آجاتے ہیں۔

اللہ تعالی نے مجھے لوگوں کا ذمہ دار (ضامن) بنایاہے۔یہی وجہ ہے کہ میں لوگوں کو اپنے قریب رکھتا ہوں۔ ان میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان کو مشقتوں اور نفرتوں سے دور کھتا ہوں۔ اور ان کی کمی اور بیشیوں کو نظر اندازکرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جس کی وجہ سے لوگ مجھ پر بھروسہ کر تے ہیں۔ میرے عقیدے کو اپنا عقیدہ سمجھتے ہیں۔ میرے ایمان کو اپنا ایمان تصور کرتے ہیں۔اور پھر مجھ سے پوچھ پوچھ کر اپنی دنیاو آخرت سنوارتے ہیں۔ فرائض و واجبات اور فضائل و مسائل کا علم حاصل کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ میری باتوں میں سچائی کی طاقت ہے۔

واشگاف الفاظ میں اعلان صداقت میری عادت ہے۔ اس کے باوجود مجھ میں کمی ہوسکتی ہے میں کو ئی فرشتہ نہیںہوں کہ مجھ سے کبھی غلطی سرزد نہ ہوتی ہو ۔میں بھی ایک انسان ہوں اور انسان کی فطرت خطاؤں سے مرکب ہے۔ اگر کو ئی یہ کہے کہ میں نے کبھی غلطی نہیں کی تو وہ جھوٹا ہے۔ اور کوئی یہ کہے کہ میں غلطیوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہوں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ امر تعجب یہ ہے کہ غلطی کے بعد انسان حیلے بازی سے کام لے اور یہ مجھے نہیں آتا۔ مجھے کہنے دیجئے مجھ میں ایک چیز اور بھی ہے کہ جو بات دوسرے کہنے سے خوف کھاتے ہیں وہ میں بے جھجک بو لدیتاہوں۔میں یہ نہیں دیکھتا کہ بات کڑوی ہے یا میٹھی ؟اور مخاطب امیر ہے یا غریب؟

معاشرہ میں میرا مقام اتنا بلند ہے کہ جب میں باہر کی طرف جاتا ہوں تو لوگ مجھے عقیدت سے سلام کرتے ہیں۔بازار جانے والے کنارے ہوکر مجھے راستہ دیتے ہیں۔ راہ چلنی والی عورتیںمجھے دیکھ کر پردہ کرنے لگتی ہیں۔ گلی کوچوں میں کھیلنے والے بچے ایک کنارے ہوکر ادب سے’مولوی صاحب‘کہہ کر سلام کرتے ہیں۔ سواری پر جانے والے مجھے پیدل جاتا دیکھ کر اپنی سواری پر بٹھالیتے ہیں۔ دوکاندار میرے دوکان میں بیٹھنے کوبرکت سمجھتے ہیں اوراپنی دوکان کا افتتاح میرے ہاتھوں کرانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

میں کسی محفل میں جاتا ہوں تو اہل محفل میرے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مالداروں سے لیکرغریب تک اورڈاکٹر سے لے کر وکیل تک سماج میں سب لوگ میری عزت کرتے ہیں۔ کسی کے یہاں بچہ کی ولادت ہوتی ہے تو مجھے اذان کیلئے بلا یا جاتا ہے اور میری اذان کو باعث سعادت سمجھاجاتاہے۔ کسی کا انتقال ہوجائے تو تجہیز و تکفین کی باگ میرے ہی ہاتھوں میں ہوتی ہے اورمیرے نمازجنازہ پڑھانے اور قبر پر فاتحہ خوانی کو باعث مغفرت تصور کیاجاتاہے۔

یہ سب اس لئے کہ میں با جماعت نماز کی پابندی کرتا ہوں۔ہر گناہ سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے سینے میں قرآن ہے۔ میرے چہرے پر شرعی داڑھی ہے۔میرا وضع قطع درست اور میری زندگی سنت کے مطابق ہے۔ میں حلال وحرام میں فرق اور جائز و ناجائز میں تمیز کرتا ہوں۔ اور میرا ہر کام اللہ اور اس کے رسول کی رضاکیلئے ہوتا ہے۔اگر مختصر کہوں تو یہ سب اس لئے کہ میں مسجد کا امام ہوں۔
٭٭٭



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *