[]
بشکیک: وسطی ایشیا کے ملک ترکمانستان میں آگ سے دہکتا گڑھا جس کو ’جہنم کا دروازہ‘ نام دیا گیا ہے اور سب اس کی جستجو میں ہیں کہ اس کے پار کیا ہے؟
1960 کی دہائی میں حادثاتی طور پر نمودار ہونے والا جہنم کا گڑھا عوامی سطح پر 1971 میں پہلی بار منظر عام پر آیا، جس کے بارے میں دہائیوں سے مفروضوں پر مبنی کہانیاں اور افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں۔
ہر سال دنیا بھر سے بڑی تعداد میں سیاح اس آگ سے دہکتے گڑھے کو دیکھنے اور سائنسدان تحقیق کے لئے ترکمانستان آتے ہیں لیکن نصف صدی سے زائد عرصے سے یہ گڑھا بیک وقت سائنسدانوں اور سیاحوں کے لئے معمہ بنا ہوا ہے۔
’جہنم کے دروازے‘ کا درجہ حرارت ایک ہزار ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہے اور ترکمانستان کی حکومت گزشتہ کئی دہائیوں سے اس میں لگی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس میں اسے اب تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
غیر ملکی تحقیقی اداروں کے مطابق ’جہنم کا دروازہ‘ کہلانے والے اس گڑھے میں قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں اور یہ سنہ 1971 سے لے کر اب تک کسی الاؤ کی طرح دہک رہا ہے۔
نیشنل جیوگرافک کے مطابق گزشتہ تقریباً 50 برسوں میں صرف ایک شخص ہی ایک ہزار ڈگری سینٹی گریڈ کے قیامت خیز 230 فُٹ چوڑھے اور 100 فُٹ گہرے گڑھے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا ہے جس کا نام جارج کورونس تھا۔
جارج کورونس 2013 میں اس گڑھے میں گیس اور مٹی کے نمونے لینے گئے تھے۔ اس خطرناک سفر کی تیاری میں انہیں دو سال لگے اور جب اسے ’جہنم کے دروازے‘ میں اُتارا گیا تو اسے گیس اور مٹی کے نمونے حاصل کرنے کے لئے صرف 17 منٹ دیئے گئے تھے۔
اپنے سفر کو یاد کرتے ہوئے جارج کورونس کا کہنا ہے کہ وہ 17 منٹ میرے دماغ کے سب سے گہرے حصے میں آج بھی موجود ہیں۔ وہ جگہ میری سوچ سے زیادہ ڈراؤنی، گرم اور وسیع تھی۔
انتہائی بھاری رسیوں کی مدد سے گیس کے گڑھے میں داخل ہونے والے جارج کورونس نے مزید بتایا کہ جب آپ بیچ میں لٹکے ہوئے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کو کسی نے دھو کر سوکھنے کے لئے لٹکایا ہے۔ جب میں اپنے اردگرد دیکھ رہا تھا تو مجھے یوں لگا کہ جیسے میں جہنم کے دروازے پر ہوں اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ اگر کچھ بھی غلط ہوا تو میں نیچے گِر کر مرجاؤں گا۔
جارج کورونس کے اس سفر کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی شیئرکی گئی تھیں جنہیں کروڑوں افراد دیکھ چکے ہیں۔