[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ میں نہتے شہریوں پر صہیونی حکومت کے حملے جاری ہیں۔ اسرائیل عالمی عدالت انصاف کے آئین میں درج چاروں جنگی جرائم کی مرتکب ہوچکی ہے۔ اس تحریر میں ان موارد کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔
عالمی عدالت انصاف کے آئین کی شق نمبر 8 میں جنگی جنایت کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے جن کی صہیونی حکومت متعدد مرتبہ خلاف ورزی کرچکی ہے۔
1- قتل عمدی
صہیونی حکومت غزہ پر حملہ کرکے اب تک 18 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کرچکی ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 6 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں جبکہ شہید ہونے والوں میں 70 فیصد بچے اور خواتین ہیں۔ یونیسیف کے ترجمان نے کہا ہے کہ بڑی تعداد میں بچوں کا قتل انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان تمام مواقع میں شہید ہونے والوں کو صہیونی حکومت نے جان بوجھ کر نشانہ بنایا ہے۔ صہیونی فورسز ہسپتالوں، سکولوں، پناہ گزین کیمپوں، عبادتگاہوں اور پبلک مقامات کو جان بوجھ کر ہدف بنارہی ہیں جبکہ جانتی ہیں کہ ان مقامات پر سویلین رہتے ہیں۔ صہیونی حکومت پبلک مقامات پر حملے کرکے حماس پر دباو بڑھانا چاہتی ہے دوسری طرف جنگ میں اپنی برتری ثابت کرنا چاہتی ہے حالانکہ ان دونوں اہداف میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔
2- شہریوں کو جسمانی نقصان پہنچانا اور رنج پہنچانا
انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی شق نمبر 8 کے مطابق انسانوں کو رنج پہنچانا اور بدن کو نقصان پہنچانا بھی جنگی جرائم میں شامل ہے۔ غزہ کا محاصرہ، دوائیوں اور طبی آلات کو روکنا، ہسپتالوں کا محاصرہ اور شہریوں کو بے گھر کرنا بھی اس کے مصادیق میں سے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اب تک 49 ہزار سے زائد عام شہری صہیونی حملوں میں زخمی ہوئے ہیں۔
3۔ املاک پر قبضہ اور وسیع پیمانے پر تخریب کاری جس کی دفاعی طور پر کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔
4- جنگ سے لاتعلق شہریوں پر حملہ کرنا
5- غیر فوجی تنصیبات پر حملہ
6- انسانی حقوق اور ہمدردی کے کاموں میں فعال کارکنوں، اداروں اور ان کی گاڑیوں پر حملہ جس اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق کام کرتے ہیں جن کو بین الاقوامی قوانین کے تحت خصوصی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
7- سویلین کو نقصان اور غیر فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچنے کا علم ہوتے ہوئے عمدا حملہ کرنا یا طویل مدت نقصان پہنچانا۔
8- شہروں، قصبوں اور رہائشی عمارتوں پر بمباری کرنا جو فوجی اہداف شمار نہیں ہوتے ہیں۔
صہیونی حکومت نے شق نمبر 3 سے 8 تک ہر ایک کی کئی مرتبہ خلاف ورزی کی ہے۔ غزہ میں رہائشی، تعلیمی، صحت اور تجارتی عمارتوں پر بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق اب تک صہیونی فورسز نے غزہ میں حملہ کرکے فلسطینیوں کے 61 فیصد گھروں کو تباہ کردیا ہے تین لاکھ سے زائد رہائشی مکانات تباہ ہوگئے ہیں۔
صہیونی روزنامہ ہارٹز کے مطابق غزہ میں ہونے والے نقصانات کا 61 فیصد صہیونی طیاروں کی بمباری کی وجہ سے ہے۔ اسرائیلی یونیورسٹی کے معاشرتی علوم کے ماہر یاگیل لوی نے کہا ہے کہ صہیونی حکومت کے ہاتھوں 2012 سے 2022 تک غزہ میں ہونے والے 40 فیصد نقصانات ہوائی حملوں کے نتیجے میں ہوئے۔ حملوں کے دوران سویلین اور جہادیوں کے درمیاں کوئی فرق نہ کرنے کی وجہ سے عام شہریوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔
9- غیر قانونی اخراج یا حبس بے جا
10- کسی بھی کو امان نہ دینے کا اعلان
فلسطینیوں کی جبری مہاجرت صہیونی حکومت کی ایک اور جنایت ہے۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی دو شقوں میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی کو جبری اخراج کرنا یا امن نہ دینے کا اعلان کرنا جنگی جنایت ہے۔
حالیہ جنگ کے پہلے دور میں اسرائیل نے کئی مرتبہ غزہ کے عوام کو دھمکی دی کہ غزہ کو ترک نہ کرنے کی صورت میں مارا جائے گا۔
جنگ کے دوسرے دورے میں بھی غزہ کے جنوبی علاقوں میں یہی اعلان کیا گیا۔ مصر کے ساتھ رفح بارڈر کھول کر فلسطینیوں کو جبری ملک سے نکالنے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینیوں مہاجرین کی تنظیم کے مطابق اس دوران تقریبا بیس لاکھ فلسطینی اپنے گھروں سے مجبورا نکل گئے۔
فلسطینی جماعت کے سربراہ مصطفی البرغوثی کے مطابق غزہ کے بعض مقامات پر شہری چھے مرتبہ اپنے گھروں کو لوٹنے کے بعد دوبارہ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود فلسطینی عوام اپنا گھر بار چھوڑنے کے تیار نہیں ہیں۔ فلسطینی عوام کو جبری بے گھر کرنے کی اسرائیلی کوشش ناکام ہوگی کیونکہ فلسطینی جانتے ہیں کہ گھروں سے نکلنے کی صورت میں ان کو سر چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔
11۔ مذہبی، تعلیمی، تاریخی اور صحت کے مراکز پر حملہ جبکہ ان میں کوئی فوجی اہداف موجود نہ ہوں۔
12۔ ہسپتالوں، طبی عملوں اور کارکنوں پر حملہ جو جنیوا کنونشن کے مطابق بین الاقوامی لوگو استعمال کرتے ہیں۔
غزہ کے خلاف کے پہلے مرحلے میں یک دسمبر تک صہیونی فورسز 255 اسکولوں اور 60 مساجد کو نشانہ بناچکی تھیں۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس کے مطابق غزہ اور مغربی کنارے میں صہیونی فوج نے طبی مراکز پر 449 دفعہ حملہ کیا ہے۔ غزہ کا طبی نظام تباہی کے دہانے پہنچا ہے۔ 36 میں سے صرف 14 جزوی طور پر فعال ہیں۔
صہیونی حملوں کی وجہ سے طبی مراکز میں عملہ کام کرنے سے معذور ہے۔
فلسطینی وزارت صحت نے بھی کہا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 294 طبی کارکن شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے ہیں۔ شفا ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ سمیت طبی عملے کے 36 افراد گرفتار ہوچکے ہیں۔
جبکہ صہیونی حملوں کی وجہ سے مجموعی طور پر 75 صحافی شہید اور 80 زخمی ہوچکے ہیں۔
13۔ شہریوں کو بھوک اور افلاس میں مبتلا کرنا اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم کرنا۔
صہیونی حملوں کی وجہ سے غزہ میں شدید غذائی قلت درپیش ہے۔ 2007 سے اسرائیل کی جانب سے محاصرہ شروع ہونے کے بعد غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکا ہے۔ عالمی اداروں کے رہنما کئی مرتبہ انسانی المیہ رونما ہونے کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود صہیونی فورسز غزہ میں غذائی اجناس اور امداد پہنچانے میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔
مصر کے ساتھ ملنے والی سرحد تاحال بند ہے اس وجہ سے غزہ کے عوام کو صہیونی حملوں کے علاوہ بھوک اور افلاس کا بھی سامنا ہے۔ فلسطینی ادارہ شماریات کے سربراہ کے مطابق غزہ میں 90 فیصد لوگ غربت کا شکار اور بیروزگاری کی شرح 65 فیصد ہے۔ دوسری رپورٹ کے مطابق عوام کی بڑی تعداد کے پاس ایک وقت کے کھانے کی روٹی نہیں ہے۔ مائیں ان حالات میں اپنا حصہ بچوں کو کھلانے پر مجبور ہیں۔
مندرجہ بالا حقائق کو دیکھنے کے بعد واضح ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت غزہ میں جنگی جنایات کی مرتکب ہورہی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے غزہ پر حملے کو اپنا دفاع قرار دیتا ہے اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لئے پیش ہونے والی قراردادوں کو ویٹو کرتا ہے۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کے سربراہ نے ادارے کی شق نمبر 99 کے تحت خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے عالمی امن اور صلح کے لئے خدشہ ظاہر کیا ہے۔