انڈین فرینڈس سرکل کے زیر اہتمام دو تصانیف کی رسم اجراء،نثری و شعری نشست

[]

ریاض۔‌کے این واصف 

انڈین فرنیڈس سرکل (آئی ایف سی) ادبی فورم ریاض کے زیر اہتمام ضیاء عرشی کے شعری مجموعہ “چشم نیم باز” اور سعید اختر آعظمی کے افسانوں کے مجموعہ “باغبان” کی رسم اجراء عمل میں آئی۔ جس کے ساتھ ایک نثری نشست اور ایک محفل شعر کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس محفل میں ماہر تخدیر ڈاکٹر سعید نواز نے صدر، مہمان خصوصی ڈاکٹر ثناء اللہ شریف، جبکہ ڈاکٹر شوکت پرویز اور وسیم قریشی نے بحیثیت مہمانان اعزازی شرکت کی۔

 

محفل کا آغاز جمیل احمد آکولوی کی قراءت کلام پاک سے ہوئی جبکہ عمران نے نعت مبارکہ پیش کی۔ ادبی محافل کی نظامت کا معروف نام حسان عارفی کے ابتدائی تعارفی کلمات کے بعد نثری نشست کا آغاز ہوا جس مین کے این واصف نے اپنا خاکہ بعنوان “السید کامل” پیش کیا۔ جس کے بعد معروف افسانہ نگار تنویر تماپوری نے ااپنا افسانہ “رائس”پیش کیا اور خوب داد پائی۔ ادیب و شاعر سعید اختر آعظمی نے اپنا افسانہ “محنت” پیش کیا۔ یہین نثری نشست اختتام پذیر ہوئی اور مہمان خصوصی ڈاکٹر ثناءاللہ شریف نے نثری نشست پر تبصرہ کرتے ہوئے انھون نے اس محفل کو ایک تاریخ ساز محفل سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ یہان اردو ادب کی شمع پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہے جہان ادیب، شاعر اور مزاح نگار یکجا ہین۔ انھون نے کہا زبان یا قوت گویائی انسان کے لئے خالق کا عظیم عطیہ ہے۔ تخلیق کار زبان کو اپنا ہتھیار بناکر برائی ختم کرنے اور نیکی اور امن قائم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ثناء اللہ نے یہ بھی کہا اردو زبان نے جد و جہد آزادی میں اہم رول ادا کیا۔

 

مہمان اعزازی ڈاکٹر شوکت پرویز نے ضیا عرشی علیگ (چشم نیم باز) اور سعید اختر فلاحی (باغبان) کے مجموعوں پر اظہار خیال کیا۔ چشم نیم باز سے متعلق انھون نے کہا کہ اس کے اشعار میں آیات قرآنی اور حدیث پاک کے اشارے و حوالے ملتے ہین۔ باغبان کو ڈاکٹر پرویز نے ایک پر اثر تخلیق بتایا اور کہا کہ اس مین شائع افسانے نئی نسل میں تحریک پیدا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سعید نواز کی صدارت مین منعقد شعری محفل میں جن شعراء حضرات نے کلام پیش کرکے داد و تحسین حاصل کی ان میں صدر آئی ایف سی طاہر بلال، ضیاء عرشی، دانش ممتاز، اکرم علی اکرم،منصور قاسمی،حسان عارفی، خورسیدالحسن نیر اور جمیل احمد آکولوی، سعید اختر آعظمی،الطاف شہریاراور ظفر محمودشامل تھے۔

 

ڈاکٹر سعید نواز نے اپنے صدارتی کلمات مین کہا کہ مشاعرے ہماری ثقافت کا حصہ ہین،اسلام سے قبل عرب قبائل میں کسی قبیلے کی عزت و احترام اس قیبلے کے شاعروں کی قابلیت طے کرتی تھی. عربی زبان کے فصیح و بلیغ قصیدوں کا رواج طلوعِ اسلام کے بعد اسی طرح باقی رہا جس طرح فارسی میں مثنویوں کا، اور وقت اور حالات کے ساتھ ان دو زبانوں کے بولنے والوں نے برصغیر میں ایک نئی زبان کو جنم دیا جسے اردو کہا گیا، جو بے حد دلکش، شیریں، سریلی تھی اور بہت تیزی سے ترقی پاکر مقبولیت کی معراج تک پہنچ گئی. اب اہل اردو کی ذمہ داری ہے کہ اس، زبان کے ادبی ذخیروں کو محفوظ رکھیں اگلی نسل تک پہنچائیں۔

 

انھوں نے کہا کہ کسی زبان کے زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے رسم الخط کی حفاظت کی جائے اور زبان کو نئی نسل میں منتقل کیا جائے ورنہ ہمارا سارا سرمایہ ردی کی نظر ہوجائے گا۔ انھوں نے کہا کہ اگر یہ زبان نئی نسل مین منتقل نہ ہوئی تو پھر علامہ اقبال کا نظریہ فکر،مولانا ازاد کے مقالے، مولانا مودودی کے خطبات، علامہ شبلی کے مضامین اور میر و غالب کی غزلیات کو ہماری اگلی نسل تک پہچنا ناممکن ہو جائے گا۔ خیام رسٹورنٹ کے ھال مین منعقد اس محفل میں پرستاران شعر و ادب کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

 

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *