[]
حمید عادل
آج کل انٹرنٹ پروہ لوگ بھی گل کھلانے لگے ہیں جو گوگلGoogleکو بڑی شان سے ’’گوگلی‘‘ کہتے ہیں ۔ حد تو یہ کہ ان سے ہم بارہا کہہ چکے تھے کہ ’’ میاں!گوگل کو ’’ گوکلی‘‘ کہنا ’’ سائبر کرائم‘‘ ہے،پولیس پکڑ لے گی!‘‘ لیکن وہ اپنی حرکتوں سے بازنہیں آئے۔ جب کہ چمن بیگ انٹر نٹ پر کی جانے والی چاٹنگ کی بدولت گوگل کو ’’ گوگل چاٹ بھنڈار‘‘ سمجھتے تھے۔ انہیں سل فون پر انٹرنٹ استعمال کرنے کا نجانے کہاں سے شوق چرایا تھا کہ انہوں نے بیگم کے سونے کا فائدہ اٹھاکران کی سونے کی انگوٹھی چرا لی تھی ۔کہتے تھے کہ وہ انگوٹھی فروخت کرکے ایسا موبائل فون خریدیں گے جس میں انٹرنٹ پر آفریقہ کا جنگل دیکھا جاسکتا ہو، جب کہ باوثوق ذرائع سے ہمیںایسی اطلاعات ملی تھیں کہ موصوف حسن و شباب کے جنگل میں منگل منانا چاہتے تھے۔
ان ہی عزائم کے ساتھ ہمیں لے کر جگدیش مارکٹ چل پڑے ، وہ دراصل تین ہزار روپیوں تک کوئی ایساسیکنڈ ہینڈ ،سی ڈی ایم پلس جی ایس ایم دو سم والا یا دو منہ والا فون بلکہ سانپ خریدنا چاہتے تھے جس میں انٹر نٹ کا زہر بھی شامل ہو۔وہ سی ڈی ایم سم کارڈ بات چیت کے لیے اور جی ایس ایم سم کارڈ انٹر نٹ کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے ۔بے شمار دکانوں میںتانک جھانک کے بعد انہیں ایک دکان پر مطلوبہ سل فون بالآخر مل ہی گیا۔اسے پاکر توان کی باچھیں کھل اٹھیںلیکن فون انٹر نٹ سے ایسے عاری تھا جیسے انسان ، انسانیت سے ۔ چمن بیگ نے انٹرنیٹ سٹنگ کے لیے کسٹمر کیر سنٹر کا رخ کیا تو وہاں یہ دکھ بھری خبر سننے کو ملی کہ جی ایس ایم سم کارڈ کا وصال ہوچکا ہے اورنومولود سم کارڈ کے لیے چمن بیگ کو اپنی تصویر معہ آئی ڈی پروف دینا ہوگا۔ وہ وہاں سے دم دبا کر باہر نکل گئے ، کیونکہ ان کے ہاں تصویر تھی اور نہ آئی ڈی پروف۔
دوسرے دن چمن بیگ سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ ’’ میں نے انٹر نٹ کے لیے نیا جی ایس ایم سم کارڈ خرید لیا ہے لیکن ہنوز انٹرنٹ سے محروم ہوں ۔‘‘
’’ کس کمپنی کا سم کارڈ خریدا ہے ؟‘‘
’’ میں نے اس کمپنی کا سم کارڈ خریدا ہے جس کے آخر میں ’’ نار‘‘ ہے۔‘‘اور پھر کہنے لگے ’’ تمہیں پتہ ہے سم کارڈ کے ساتھ سو روپئے کا آفٹر شیو لوشن مفت تھا۔‘‘
’’ ہم نے کہا ’’تم موبائل کی دکان پر سم کارڈ خریدنے گئے تھے یا شیونگ بنوانے؟ارے تم نے ایسی کمپنی کا سم کارڈ خریدا ہی کیوں جس کے نام ہی میں ’’ نار‘‘ یعنی دوزخ ہو۔‘‘
بہرحال! مذکورہ کمپنی کے کسٹمر کیر سنٹرپہنچے تو وہاں موجود غیر ذمے دار عملہ کچھ دیر تک چمن بیگ اور ان کے فون سے کھیلتا رہا اورپھر اعلان کردیا کہ خرابی سم کارڈ میں نہیں فون کے خون میں ہے ، آپ فون کے سرویس سنٹر کا رخ کریں ۔ چمن بیگ دوڑے دوڑے سرویس سنٹر پہنچے تو وہاں کے بااخلاق عملے نے اعلان کرڈالا کہ یہ خرابی فون کی نہیں سم کارڈ کی ہے۔
’’ میں تو یار ! فٹ بال بن کر رہ گیا ہوں، دونوں ہی طرف سے مجھے لاتیں پڑرہی ہیں۔‘‘ چمن بیگ نے منہ بسورتے ہوئے ریمارک کیا۔
’’ حوصلہ رکھو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
اور پھرچمن بیگ کی انٹر نٹ کی تڑپ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے انہیںایک مفت کے مشورے سے نوازا:
’’ تم سی ڈی ایم سم کارڈ پرانٹر نٹ کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟‘‘ ہمار مشورہ سن کر وہ بے حد خوش ہوئے اورایک طاقتور گھونسہ ہماری پیٹھ کی نذر کرتے ہوئے کہنے لگے:
’’مجھے تم پر فخر ہے،مشکل وقت میں تم بڑے کارآمدمشورے دیتے ہو۔‘‘
کسٹمر کیر سنٹر جانے کے لیے جیسے ہی ہم نے رخت سفر باندھا، چمن بیگ کی موٹر سائیکل سڑک کے بیچوں بیچ پنکچر ہوگئی۔ پتہ نہیں کونسی نیکی آڑے آگئی ، ورنہ ہمیں کوئی بھی برق رفتار سواری سڑک پربچھا کر چلی جاتی اور ہم حمید عادل نہ رہ کر ’’ سرخ قالین‘‘ میں تبدیل ہو جاتے!
جب چمن بیگ انٹر نٹ کی چاہ میںتقریباً دو کلو میٹر تک موٹر سائیکل کو کھینچتے ہوئے کسٹمر کیر سنٹر پہنچے تو ان کی زبان باہر کونکلی ہوئی تھی اور وہ بری طرح سے ہانپ اور کانپ رہے تھے ۔سل فون کے معائنے کے بعد کہا گیا کہ انٹر نٹ کے لیے باقاعدہ نیا سم کارڈ خرید کر انٹرنٹ Activateکرنا پڑے گا۔سو روپیوں کی ادائیگی کے بعد نیا سم کارڈ خریدا گیا تو خدا کی قدرت سے انٹر نٹ چل پڑا ،لیکن انٹر نٹ بیالنس رہنے کے باوجود اصل بیالنس سے انٹرنٹ استعمال کرنے کے نام پر کمپنی اس بری طرح سے رقم کتر رہی تھی کہ دس منٹ میں ہی چمن بیگ لہو لہان ہوگئے ۔جی ایس ایم سم کارڈ پر انٹر نٹ نہیں آرہا تھا اور سی ڈی ایم سم کارڈ کی کمپنی تلوار لیے بیٹھی تھی،اس لیے چمن بیگ نے ہمارے ایک اور قیمتی مشورے پر عمل کرتے ہوئے اس منحوس موبائل کو ہی ٹھکانے لگا دیا اور پھر 700روپیوں میں ایک بندر نما موبائل فون خرید لیا ۔ بندر تو انہوں نے چار آنے میں خریدا لیکن اس کے لیے رسی انہیں بارہ آنے کی خریدنے پڑی۔ جی ہاں ! مرمت کے نام پر ان کے ڈیڑھ ہزار روپئے خرچ ہوگئے، تب کہیں جاکر سل فون آنکھیں ملتے ہوئے جاگا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا۔تین دن تک انٹرنٹ بھی مسلسل آتا رہا لیکن چوتھے دن سل فون سے انٹر نٹ ایسے غائب ہوا جیسے دنیا سے ڈینوسار!
چمن بیگ بلبلا کرفون کے سرویس سنٹر جاپہنچے تو ان سے کہا گیاکہ فون تندرست ہے، آپ کسٹمر کیر پر فلاں نمبر پرایس ایم ایس کرکے انٹر نٹ سٹنگ بھیجنے کی درد مندانہ گذارش کریں۔چمن بیگ نے ایس ایم ایس بھیجنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ ایس ایم ایس سرویس مسدود ہے۔پہلے انٹر نٹ بند ہو چکا تھا اور اب ایس ایم ایس سرویس نے دغا دے دیا تھا ۔ چمن بیگ دوڑے دوڑے دوبارہ کسٹمر کیر سنٹر پہنچے تو انہیں دلاسہ دیا گیا کہ شام تک ایس ایم ایس سرویس اور اگلے 48گھنٹوں میں انٹر نٹ بحال ہوجائے گا۔یہ تسلی بخش جواب پاکر چمن بیگ فاتحانہ انداز میں ہم سے گویا ہوئے :
’’ اب بولو؟‘‘
’’ زندگی کی دعا کرو چمن بیگ، کسے پتہ اگلے 48 گھنٹوں میںانٹرنٹ تو آجائے لیکن تم اس دنیا میں نہ رہو!‘‘
ہمارا یہ تلخ ریمارک سن کر چمن بیگ بری طرح سے بدک گئے اور ان پر سکتہ طاری ہوگیا۔
48گھنٹوں بعدبھی ایس ایم ایس سرویس اور انٹر نٹ کا بحال ہونا تو چھوڑیے سم کارڈ ہی مکمل طور پرغیر کارکرد ہوکر رہ گیاتھا ۔حالانکہ بندسم کارڈ کو کھولنے کے لیے چمن بیگ نے کئی بار ’’ کھل جا سم سم‘‘ کا جادوئی نعرہ بھی مارا تھا ۔ ہم نے چمن بیگ کو دلاسہ دیاتو ہاتھ منوج کمار کی طرح اپنے چہرے پر رکھ کرنہایت بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگے :
’’اب بہت ہو چکا ، سوچ رہا ہوں خودکشی کرلوں ۔‘‘
’’ سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا، کر گزرو۔‘‘ہم نے شگوفہ چھوڑا۔
’’تم سے ایک بات کرنی ہے ۔‘‘ چمن بیگ نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
’’ بکو‘‘
’’ 3150روپیوں میں بہترین نیاموبائل دستیاب ہے ،جس پردو ہزار روپئے کے اسٹیل کے برتن مفت دیے جا رہے ہیں، سنا ہے کہ انٹرنٹ اس پر اچھلتے کودتے آتا ہے ۔ ‘‘
’’ تو پھر سوچنا کیسا؟ فوری خرید لو۔‘‘
’’ لیکن کس طرح؟ اگر موجودہ موبائل کو میں فروخت کرنا چاہوں تو مشکل سے ڈیڑھ ہزار روپئے آئیں گے ، مزید 1650روپئے کہا ں سے لاؤں؟‘‘
’’ بھابی سے لے لو۔‘‘
’’ وہ کہاں دے گی،بڑی کنجوس ہے۔‘‘
’’ان سے یہ کہہ کر پیسے اینٹھوکہ تم گھر میں اسٹیل کے نئے برتن لانا چاہتے ہو۔‘‘
’’ لیکن اسٹیل کے برتن تو پہلے سے موجود ہیں۔‘‘
’’ارے یار! جس تھالی میں کھاؤ اسی میںاس قدر چھید ڈالنا شروع کردوکہ بھابی تمہیں نئے برتنوں کے لیے پیسے دینے پر مجبور ہوجائیں اور تم برتن بھابی کے حوالے کردو اور موبائل اپنے پاس رکھ لو۔‘‘
’’ ارے واہ کیا آئیڈیا ہے؟بلکہ میں تو کہوں گا یہ محض آئیڈیا ہی نہیں ایر ٹیل اور ایر سیل بھی ہے ۔‘‘
چمن بیگ نے ہمارے قیمتی مشورے کے عین مطابق گھرکے برتنوں میں خواہ مخواہ نقص نکالنا شروع کردیا توان کی تنک مزاج بیگم نے دو ٹوک انداز میں ٹوک دیا :
’’ کھانا ہے تو ان ہی برتنوں میں کھاؤ ورنہ دستر خوان سے اٹھ جاؤ ۔ ‘‘ اور پھر بیلن دکھاتے ہوئے بولیں :
’’خبردار ! آئندہ میرے والدین کے دیے ہوئے برتنوں کوبرا کہا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔‘‘
اس نازک سچوئشن کو سننے کے بعد ہم نے انہیں ایک اور مفت کے مشورے سے نوازتے ہوئے کہا:
’’ دیکھو خاں ! سیدھی انگلی سے اگر گھی نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرلینی چاہیے ۔‘‘
’’ لیکن میری انگلی تو پہلے ہی سے ٹیڑھی ہے ۔‘‘ چمن بیگ نے اپنی ٹیڑھی انگلی ہمارے آگے لہراتے ہوئے مسرت کا اظہار کیااور پھر قدرے توقف سے بولے ’’ ویسے اب مجھے کرنا کیا ہے؟‘‘
’’ چوری!‘‘
’’ تمہارے گھر میں؟‘‘ چمن بیگ فوری چہک اٹھے۔
’’ نہیں!تمہیں اپنے ہی گھر میں چوری کرنی ہوگی ۔ ‘‘
’’ایک اور چوری۔‘‘
’’ہاں! ایک اور چوری اور تم اب اسٹیل کے برتن چراؤ گے۔‘‘
’’ اور اسٹیل کے برتنوں کو چرا کر میں کروں گا کیا؟‘‘
’’ اچار ڈالو۔‘‘ہم نے بیزارگی سے جواب دیا۔
’’ کیا اسٹیل کا اچارذائقہ دار ہوتا ہے؟!‘‘
چمن بیگ نے اپنی کم عقلی کا بھرپور ثبوت دیتے ہوئے پوچھا۔
’’ عقل کے اندھے ! ارے جب گھر سے اسٹیل کے برتن چوری ہوجائیں گے تو تمہیں نئے برتن خریدنے کا موقع ملے گااورپھرتم بآسانی وہ موبائل فون خرید سکوگے جس پر تمہارا دل آگیا ہے ۔‘‘
’’ ارے واہ! کیا بات ہے؟میں آج رات ہی کھڑکی کے ذریعہ اپنے فلیٹ میںداخل ہوکرچوری کروں گا!‘‘چمن بیگ نے آہنی عزم کا اظہار کیا۔
دوسرے دن صبح صبح چمن بیگ کا لڑکا ہمارے گھر آیا اور کہنے لگا کہ ’’ انکل !جلدی چلیے،ابو بلڈنگ کے پچھلے حصے میں بیہوش پائے گئے ہیں ،گھر پر پولیس بھی آگئی ہے ۔‘‘
’’ وہ بے ہوش کیسے ہوئے؟‘‘
’’غالباًابو نے کل رات سیڑھیوں سے آنے کی بجائے کھڑکی سے آنے کی کوشش کی تھی،جلدی چلیے امی آپ کو بلا رہی ہیں ۔‘‘
لڑکے کی باتیں سن کر ہمیں یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ چمن بیگ نے ہمارے مخلصانہ مشورے پر عمل کرتے ہوئے بلڈنگ کے عقبی حصے سے فلیٹ میں داخل ہونے کی حماقت کی تھی اور اس حماقت میںوہ دوسری منزل سے گر کر بے ہوش ہوگئے !
۰۰۰٭٭٭۰۰۰