[]
پاکستان کے لیے گزشتہ چند برس زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔ سیاسی تفریق، معاشی پریشانیاں، سیلاب، بےروزگاری اور مہنگائی، ان سب نے عوام کی مشکلات بڑھا دیں۔ لیکن زندگی رواں ہے اور سماجی سرگرمیاں جاری ہیں۔
اگر آپ نے کبھی سوچا ہے کہ طرح طرح کے اقتصادی اور سماجی مسائل کے باوجود پاکستانی معاشرہ کس بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے، تو اس کا جواب بہت سے سماجی دانشوروں کے مطابق یہ ہے کہ اس طرز عمل کی بنیاد ‘عام آدمی کا عام آدمی سے ہمدردانہ رویہ‘ ہے۔
’معاشرہ ہمدردی کی بنیاد پر کھڑا ہے‘
سماجی دانشور اور مصنف احمد اعجاز کا ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”پاکستان میں بظاہر کچھ بھی ٹھیک نہیں چل رہا۔ اس کے باوجود کچھ بھی تعطل کا شکار نہیں۔ لوگوں کی شادیاں، کاروبار اور روزمرہ کے معمولات جاری ہیں، جس کی وجہ عام لوگوں کا ایک دوسرے سے ہمدردانہ رویہ ہے۔ ہمارا معاشرہ ہمدردی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔”
سماجی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پاکستان کی آبادی تقریباً تیئیس کروڑ ہے۔ بے انتہا غربت ہے۔ اس کے باوجود لوگ فاقوں سے نہیں مر رہے، کسی نہ کسی طرح بنیادی ضروریات پوری ہو ہی رہی ہیں۔ اس میں کلیدی کردار چیریٹی کا ہے۔ اسے دیکھنے کا دوسرا زاویہ یہ ہے کہ سوچیے اگر لوگ خیراتی کاموں میں اتنے فیاض نہ ہوں، تو معاشرے کا کیا حال ہو جائے گا؟” ایسا کہنا محض جذباتیت نہیں بلکہ اس کی تصدیق کئی طرح کے تحقیقی اعداد و شمار بھی کرتے ہیں۔
چیریٹی سے متعلق اعداد و شمار
معروف جریدے سٹینفورڈ سوشل انوویشن ریویو کے مطابق، ”پاکستانی باشندے ہر سال اپنے ملک کی مجموعی اقتصادی پیداوار کا ایک فیصد سے زیادہ حصہ خیراتی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔” یہ سالانہ اوسط کینیڈا (جی ڈی پی کا 1.2 فیصد) اور برطانیہ (جی ڈی پی کا 1.3 فیصد) جیسے امیر ممالک سے تھوڑی سی کم ہے۔
پاکستان سینٹر فار فلنتھراپی نے 2015ء میں گھر گھر جا کر ایک سروے کیا تھا، جس میں 15 ہزار گھرانوں سے معلومات حاصل کی گئی تھیں۔ یوں حاصل ہونے والے ڈیٹا کے تجزیے سے پتہ چلا تھا کہ عام پاکستانی ”سالانہ 240 بلین روپے خیراتی کاموں کے لیے دے دیتے ہیں۔‘‘ اسی رپورٹ کے مطابق، ”پاکستان میں تقریباً 98 فیصد لوگ کسی نہ کسی شکل میں خیراتی کاموں کے لیے رقوم خرچ کرتے ہیں۔” ورلڈ گیِونگ انڈیکس میں 144 ممالک میں پاکستان کا نمبر 91 بنتا ہے۔
پاکستانی اتنے فیاض کیوں؟
رحمت اللعالمین اتھارٹی کے چیئرمین اور دانشور خورشید ندیم کے بقول اس فیاضی کی ایک بڑی وجہ پاکستانی معاشرے کا مذہبی پہلو ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”اسلام میں دوسروں کی مدد اور ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کی بڑی تلقین کی گئی ہے۔ چنانچہ ایک مسلم اکثریتی معاشرے کے طور پر یہ پاکستان کی شناخت کا حصہ ہے۔ ایسا کرنا بطور انسان بھی اچھا لگتا ہے۔ لہٰذا یہ ہمدردانہ رویہ فطری ہے، جو چیریٹی کے کاموں لیے دل بڑا کر دیتا ہے۔”
احمد اعجاز کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستانی معاشرے کا روایتی بنیادوں پر استوار ہونا بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”کسی بھی روایتی معاشرے کی طرح ہم اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔ جدید معاشروں میں عوامی فلاح و بہبود اور معاشرتی ترقی کا ڈھانچہ ریاستوں نے فراہم کیا۔ ہمارے ہاں ایسے بنیادی ڈھانچے نہیں۔ لوگ زندگی میں آگے بڑھتے ہیں، اس لیے کہ انہیں چند ہمدرد انسان میسر آ جاتے ہیں۔”
’پاکستان میں عام آدمی اشرافیہ سے زیادہ خیرات کرتا ہے‘
روال راج کے مصنف سجاد اظہر اپنے تحقیقی مضمون ‘پاکستانی ارب پتی فلاحی کاموں میں پیچھے کیوں ہیں؟‘ میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ عام شہری خیراتی کاموں میں زیادہ حصہ ڈالتے ہیں جبکہ اکثر ارب پتی سرمایہ کاروں کے لیے خیراتی کام کرنا ٹیکسوں سے بچنے کے لیے حربہ ہوتا ہے۔
وہ لکھتے ہیں، ”امیر افراد اپنی آمدن کا ایک بڑا حصہ ٹرسٹ بنا کر اس میں خرچ ظاہر کرتے ہیں لیکن عملاً اس رقم کا بہت کم حصہ خرچ کیا جاتا ہے اور صرف کاغذوں کا پیٹ بھر کر حکومت سے ٹیکسوں میں چھوٹ لے لی جاتی ہے۔”
صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قائم خیراتی ادارے عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین چوہدری نثار احمد کی گفتگو سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ پاکستان میں عام شہری چیریٹی کاموں میں زیادہ آگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ سال ”فلاحی کاموں پر ایک ارب 70 کروڑ روپے خرچ کیے، جن میں سے تقریباً 60 فیصد عطیات عام آدمی نے دیے تھے۔ باقی 40 فیصد رقوم امیر شہریوں یا اداروں نے عطیہ کی تھیں۔‘‘
پاکستان کے سب سے بڑے خیراتی اداروں میں سے ایک الخدمت فاؤنڈیشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر اشرف علی نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس میں کوئی شک نہیں کہ خیراتی کاموں میں پاکستان کے عام شہریوں کو ارب پتی سرمایہ کاروں پر سبقت حاصل ہے۔ بیشتر سرمایہ کار اس عمل کو ٹیکس بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر اشرف علی کہتے ہیں، ”دنیا میں بڑے سرمایہ کار ٹرسٹ قائم کر کے اسے اپنا بغل بچہ نہیں بنا لیتے۔ کسی بھی ٹرسٹ کو فری، شفاف اور ایک کھلی کتاب کی طرح ہونا چاہیے۔ اس کا غیر جانبدار اداروں کی طرف سے آڈٹ بھی ہونا چاہیے، جس کے نتائج عام شہری بھی دیکھ سکیں۔”
لوگ خیراتی اداروں کے بجائے براہ راست مدد کرنا پسند کرتے ہیں
پاکستان سینٹر فار فلنتھراپی کی رپورٹ کے مطابق، ”پاکستانی باشندے براہ راست مستحق افراد کی مدد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس کی وجہ ان میں بہت سے اداروں پر اعتماد کی کمی ہے۔” اس پہلو پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف علی کہتے ہیں، ”مستحقین کی براہ راست مدد نسبتاً آسان ہوتی ہے۔ آپ خود دیکھتے ہیں کہ کسی کی کیا ضرورت ہے اور پھر اس پر حسب استطاعت خرچ کر دیتے ہیں۔ لیکن جن اداروں کی شہرت بہت اچھی ہو، لوگ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں، جیسے الخدمت فاؤنڈیشن اور ایدھی فاؤنڈیشن جیسے ادارے۔‘‘
الخدمت فاؤنڈیشن پنجاب کے صدر کے بقول، ”ارب پتی سرمایہ کاروں کو اپنے قائم کردہ خیراتی اداروں کا نظام شفاف بنانے اور چیریٹی میں اپنا اور زیادہ حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ادارے دیرپا منصوبے اپنا کر زیادہ بہتر خیراتی کام کر سکتے ہیں۔ اس لیے ایسے اداروں پر عمومی اعتماد کی مکمل بحالی بھی ضروری ہے۔ تاہم اگر یہی کام انفرادی سطح پر بھی کیا جا رہا ہے، تو بھی یہ قابل تحسین ہے۔”
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;