[]
مہر خبر رساں ایجنسی بین الاقوامی ڈیسک؛ تہران ٹائمز کو غزہ کی جنگ کے حوالے سے ایک انتہائی خفیہ آڈیو ٹیپ موصول ہوئی ہے۔ یہ آڈیو صہیونی حکومت کی ایک خفیہ میٹنگ کے بارے میں ہے جس میں اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ آیو کوخاوی بھی شریک ہیں۔
تہران ٹائمز کو موصول ہونے والی آڈیو میں کوخاوی کو کی باتیں اچھی طرح سنی جاسکتی ہیں۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق غاصب صیہونی رجیم کے سابق آرمی چیف نے غزہ کی مزاحمتی فورسز کے خلاف خفیہ آپریشن پلان ڈسکس کیا جس کا متن حسب ذیل ہے:
“مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنی بات کا آغاز اس جملے سے کروں کہ مجھے یقین ہے کہ ہم حماس کی فوجی قوت اور حکومت کی بنیاد کو تباہ کر سکتے ہیں۔
البتہ ہاں، یہ سچ ہے کہ ہم اسلام کے جذبہ اخوت کے کلچر اور انقلابیت پسندی اور اس جیسی چیزوں کو فلسطینیوں کے ذہنوں سے نہیں مٹا سکتے۔
لیکن دوسری طرف ہم حماس کی عسکری اور تنظیمی قوت کو تباہ کر سکتے ہیں۔
ہمارے پاس نئے اہداف پیدا کرنے کے منظم طریقے موجود ہیں۔ درحقیقت، ہم نئے اہداف پیدا کرنے میں بہت کامیاب ہیں اور یہ جنگ کے دوران کا ایک مسلسل عمل ہے اور ہمارے پاس فوج اور صلاحیتیں ہیں۔
ہمیں اپنی افواج بھیج کر انہیں [غزہ میں] منتشر کرنا چاہیے۔
اس سرزمین کو ہماری افواج سے مکمل طور پر بھر دیا جائے تاکہ ہم اس انفراسٹرکچر میں موجود تمام دہشت گردوں کو نہ صحیح تو زیادہ تر کو ڈھونڈ سکیں۔
ایک مثال جو میں آپ کو ماضی سے دے سکتا ہوں وہ دفاعی لائن آپریشن ہے۔
اس وقت بہت سے لوگ تھے جو یہودیہ اور سامریہ میں فلسطینی دہشت گردی کو ختم کرنے کی ہماری صلاحیت پر شک کرتے تھے تاہم سچ کہا جائے تو غزہ کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ لیکن ہم ایک ٹن بم استعمال کر رہے ہیں اور ہر رات ان میں سے ۴۰۰ [فلسطینیوں پر] گرا رہے ہیں۔
ہم اب وہی پرانے طریقے استعمال نہیں کر رہے البتہ دوستو کچھ وقت لگے گا!
دفاعی لائن آپریشن میں ہمیں ابتدائی مراحل سے گزرنے میں ۶ ہفتے لگے۔ ہمیں اس خطے میں فلسطینی دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کرنے میں ۳ سال لگے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہمیں تین سال درکار ہیں لیکن ہم یہ مشن تین ماہ میں مکمل نہیں کر سکتے۔ اس آپریشن کی بنیاد وقت، وقت اور صرف وقت پر منحصر ہے۔
ہمیں وقت حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
ہمیں حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے یا امریکہ سے کہیں کہ وہ ہمیں وقت دے اور دیگر چیزیں فراہم کرے۔
امریکہ کی قیادت میں عالمی برادری کو سمجھنا چاہیے کہ اسے ہمیں وقت دینے کی ضرورت ہے۔ وہ خود یعنی یورپ اور امریکہ اور کوئی بھی جدید لبرل جمہوری حکومت حماس کی تباہی کے علاوہ کوئی نتیجہ برداشت نہیں کر سکتی۔
میں اس پرانی بیماری کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں البتہ ہر استعارے اور تعبیر کی اپنی محدویت ہوتی ہے، لہذا لوگ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ اب اس دائمی بیماری کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، وہ ملک چھوڑ دیں گے، وہ ہر صورت ملک چھوڑ دیں گے! یا یہ کہ وہ اب اسرائیل کے شمال یا جنوبی علاقوں میں الجلیل جانے پر راضی نہیں ہیں۔
وہ کہیں گے کہ وہ اب اس پرانی بیماری کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور وہ اس نام نہاد آسمانی سر زمین میں نہیں رہنا چاہتے۔
اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اب ہم ایک پیراڈائم شفٹ کے قریب پہنچ رہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ ہم یہودی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر ہیں۔