[]
غزہ: غزہ پر اسرائیلی بمباری کے سبب ہزاروں افراد جاں بحق اور سیکڑوں لوگ شدید زخمی ہو چکے ہیں جنہیں ہسپتالوں میں منتقل کیا جارہا ہے، ان میں سے کئی زخمی ایسے بھی ہیں جو بمباری کے سبب جسمانی اعضا سے محروم ہوچکے ہیں یا طبی پیچیدگیوں کے باعث ہسپتال کا عملہ اْن کے اعضا کاٹنے پر مجبور ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ان ہی میں سے ایک فلسطینی بچی لایان الباز بھی ہے جو اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوچکی ہے، درد کش ادویات کا اثر ختم ہوتا ہے تو 13 سالہ لایان الباز تکلیف سے بلبلا اٹھتی ہے اور کہتی ہے کہ مجھے مصنوعی ٹانگیں نہیں چاہئیں۔
اسرائیل کی جانب سے کئی برسوں سے غزہ کی ناکہ بندی جاری ہے، 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی حملوں کے سبب یہ علاقہ خوراک، پانی اور ایندھن کی شدید قلت کا شکار ہے اور طبی سامان کی بھی کمی ہے۔
ہسپتال کے پیڈیاٹرک وارڈ میں اپنے بستر پر لیٹی لایان الباز مایوسی سے کہتی ہے کہ ’میں چاہتی ہوں کہ وہ میری ٹانگیں واپس لگادیں، میں جانتی ہوں کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں‘، درد کش ادویات کا اثر ختم ہونے کے بعد جب بھی وہ اپنی آنکھیں کھولتی ہے تو اپنی ٹانگوں پر بندھی پٹیوں کو دیکھتی ہے۔
لایان الباز کی 47 سالہ والدہ لامیا الباز کا کہنا ہے کہ لایان پچھلے ہفتے خان یونس کے ضلع القارا پر حملے میں زخمی ہوئی تھی، اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ان کی 2 بیٹیاں اخلاص اور خیتم اور ایک نوزائیدہ بچے سمیت 2 پوتے مارے گئے تھے، وہ لوگ اخلاص کی مدد کے لیے وہاں موجود تھا جس نے ابھی ایک بچے کو جنم دیا تھا۔
لامیا الباز نے دردناک لمحات یاد کرتے ہوئے بتایا کہ لاشیں کئی ٹکڑوں میں بکھر چکی تھیں، مجھے مردہ خانے میں اپنی بیٹیوں کی لاشوں کی شناخت کرنی تھی، میں نے خاتم کو اس کی بالیوں سے اور اخلاص کو اس کی انگلیوں سے پہچانا۔
زخموں سے بھرے چہرے اور بازووں کے ساتھ لایان الباز نے پوچھا کہ میرے سارے دوست چل سکتے ہیں لیکن اب میں نہیں چل سکوں گی تو میں اسکول کیسے جاؤں گا؟لامیا الباز نے اپنی بیٹی کو حوصلہ دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہارے ساتھ رہوں گی، سب ٹھیک ہو جائے گا، ابھی پوری زندگی باقی ہے۔
ہسپتال کے برن یونٹ میں 14 سالہ لامہ الآغا اور اس کی 15 سالہ بہن سارہ کو ملحقہ بستروں پر لٹایا گیا، ان کے ہمراہ موجود ان کی والدہ نے روتے ہوئے بتایا کہ 12 اکتوبر کے حملے میں سارہ کی جڑواں بہن سما اور 12 سالہ بھائی یحییٰ جاں بحق ہو گئے تھے۔
14 سالہ لامہ الآغا نے بتایا کہ جب انہوں نے مجھے یہاں منتقل کیا، تو میں نے نرسوں سے کہا کہ وہ بیٹھنے میں میری مدد کریں اور مجھے پتا چلا کہ میری ٹانگ کاٹ دی گئی ہیں، میں بہت تکلیف سے گزری ہوں لیکن میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں ابھی تک زندہ ہوں۔
لامہ الآغا پْرعزم ہے کہ وہ ان زخموں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرنے دے گی، اس نے کہا کہ میں مصنوعی ٹانگ لگواو?ں گا اور اپنی تعلیم جاری رکھوں گا تاکہ میں ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کر سکوں، میں اپنے اور اپنے خاندان کے لیے مضبوط بنوں گی۔