اسرائیل کی جارحیت اور ہندوستان کا بدلتا موقف

[]

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

فلسطین میں حالات روز بہ روز دھماکو ہوتے جارہے ہیں۔اسرائیل نے گزشتہ 25دن سے فلسطینیوں پر اپنے ظلم و جبر کی جو انتہا کردی ہے اس کی مثال تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔اس نے زمینی و فضائی حملہ کرتے ہوئے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کردیا اور لاکھوں فلسطینی اسرائیلی فوج کی بمباری سے زخمی ہوگئے۔جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد دس ہزار سے بھی بڑھ گئی ہے۔ان میں چار ہزار معصوم بچے بھی شامل ہیں۔اسرائیل نے اعلان کردیا کہ وہ حماس سے کوئی جنگ بندی کا معاہدہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسرائیلی حکمرانوں نے دعویٰ کیا کہ جس طرح نیو یارک میں ہوئے 9/11کے دہشت گردانہ حملے کے بعد امریکہ اور اس کے حلیفوں نے افغانستان پر مسلسل بمباری کرکے طالبان کو ٹھکانے لگا یا تھا، اسی طرح اسرائیل حماس سے 7/اکتوبر کا بدلہ لیتے ہوئے اس کی طاقت کو تہس نہس کردے گا۔اس کے اس جارحانہ عزائم کی تائید امریکہ اور برطانیہ بھی کررہے ہیں۔اسرائیل کے اس جنگی جنوں کے نتیجہ میں اس بات کے پورے امکانات ہیں کہ عرب۔اسرائیل جنگ کے شعلے اب بہت جلد ختم ہونے والے نہیں ہیں۔اسرائیل اپنی پوری فوجی طاقت کو جھونک کر نہ صرف سارے فلسطین پر اپنا ناجائز قبضہ قائم کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ سارے عرب خطہ کو بھی اپنے زیر نگیں لانے کی تیاری کررہا ہے۔حماس نے 7/اکتوبر کو اسرائیل پر جو حملہ کیا وہ انتقامی نوعیت کا تھا۔ گزشتہ پچہتر سال سے اسرائیل نے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی تھی۔وہ ان کو اپنے علاقے میں بھی آزادانہ طور پر رہنے کا بھی موقع نہیں دے رہا تھا۔2012 سے غزہ کی ناکہ بندی کردی گئی تھی۔ حالات کی اس سنگینی نے فلسطینیوں کے صبر کے پیمانے کو لبریز کر دیا اور فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے اسرائیل کو اپنی اوقات بتانے کے لیے زبردست حملہ کردیا۔یہ ایک ردعمل تھا جو دنیا نے فلسطینیوں کی جانب سے دیکھا۔ حماس کی اس منصوبہ بند کاروائی کو دہشت گردی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔دنیا میں ہر گروہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کی آزادی کے لیے دشمن سے مقابلہ کرے۔اسرائیل ایک غاصب مملکت ہے۔اس نے فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرکے ان کے خلاف ہی جنگ چھیڑدی ہے۔دنیا کا ہر قانون اس بات کی تائید کرتا ہے کہ جس کی زمین چھینی گئی ہے اسے واپس لینے کا حق اسے حاصل ہے، لیکن اسرائیل کے معاملے میں دنیا نے دہرا رول ادا کیا ہے۔ حماس کے 7/اکتوبر کے اقدام کو اسرائیل نواز طاقتیں دہشت گردی کے زمرے میں شامل کرتی ہیں،لیکن حماس کی اس کارروائی کے بعد اسرائیل نے مسلسل بدترین دہشت گردی کا ثبوت دیتے ہوئے غزہ کی 23لاکھ آبادی کو جس انداز میں اپنی سفاکیت کا نشانہ بنایا ہے،اس پر اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والوں کی زبانیں بند ہیں۔نسل کشی کا جو بازار اس وقت غزہ میں نظر آرہا ہے، اس پر دنیا کا ضمیر نہیں جاگ رہا ہے۔اسرائیل کی شدید بمباری سے ہاسپٹل بھی نہیں محفوظ رہے۔گزشتہ دنوں دو دواخانوں پر اسرائیلی فوج نے بم برسا کر پانچ سو سے زائد افراد کو موت کی نیند سلادیا۔ اسی ہفتہ فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں پر بھی راکٹ داغ کر ہزار وں فلسطینیوں کی جان لے لی۔اسرائیلی وزیر دفاع نے فلسطینیوں کو ”انسانی جانوروں“ سے تعبیر کرکے ان کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھنے کا جواز پیدا کرلیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے کئی مرتبہ اپنے اس اعلان کو دوہرایا کہ جنگ بندی کے معنی حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے ہیں۔اسرائیل کبھی یہ کام نہیں کرے گا۔
اسی دوران گزشتہ جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کرتے ہوئے اس بات کی کوشش کی گئی کہ فلسطین میں جاری قتل و خون کو روکا جائے۔انسانی بنیادوں پر دونوں فریقوں سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ قرارداد اردن کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔قرارداد کی تائید میں 120ممالک نے ووٹ دیا،جبکہ 14ممالک نے قراداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ 45رکن ممالک ووٹنگ سے غیر حاضر رہے۔ افسوس کہ ان 45 ممالک میں ہندوستان بھی شامل ہے۔ہندوستان کا یہ موقف اس کی دیرینہ خارجہ پالیسی کے عین مغائر ہے۔غزہ جنگ بندی ووٹنگ میں ہندوستان کی غیر حاضری نے اس ملک کے تمام انسانیت پسندوں کو حیران و ششدر کردیا۔ ہندوستان سابق میں ہمیشہ ظلم و ناانصافی کے خلاف چٹان بن کر کھڑا رہا۔جہاں تک عربوں سے دوستی اور فلسطین کی تائید کا معاملہ ہے اس میں ہندوستان کا جو موقف رہا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران اور پھر ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک ہندوستان نے کبھی غاصب طاقتوں کی تائید نہیں کی۔ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں پہلے دن سے یہ بات کہی گئی کہ فلسطین میں اسرائیلی مملکت کا وجود ناجائز ہے۔فلسطین پر صرف فلسطینیوں کا حق ہے۔یہ زمین ان کی ہے۔اس پر کوئی دوسرا قبضہ نہیں کرسکتا۔ تحریک آزادی کے سرخیل مہاتما گاندھی کا یہ قول تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھ دیا گیا کہ ”جس طرح برطانیہ،برطانوی قوم کا ہے،فرانس، فرانسیوں کا ہے، اسی طرح فلسطین،فلسطینیوں کا ہے۔“ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو، جنہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی بنانے میں اہم رول ادا کیااور وہ خارجہ پالیسی کے معمار بھی مانے جاتے ہیں، ہمیشہ فلسطینی عوام کے حق آزادی کو تسلیم کرتے رہے۔ سابق وزیراعظم اندراگاندھی کے دور میں تو ہند۔فلسطینی تعلقات انتہائی بلندیوں تک پہنچ گئے۔فلسطینی رہنماء یاسر عرفات اندراگاندھی کو اپنی بہن قرار دیتے تھے۔جب کبھی فلسطین کے حالات دگرگوں ہوتے،یاسر عرفات ہندوستان کا رخ کرتے اور انہیں یہاں بھرپور کامیابی ملتی۔ جس وقت ہندوستان میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت تھی اور اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے۔انہوں نے بھی ببانگ دہل فلسطینی عوام کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے کہا تھاکہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے اور اسرائیل کا قبضہ ناجائز ہے۔اس لیے فلسطین سے اسرائیل کو زمین خالی کر نی ہوگی۔
فلسطینی عوام سے ہندوستان کا یہ اظہار یگانگت محض حق و انصاف کی بنیاد پر رہا۔ہمارے قومی قائدین کا یہ احساس رہا کہ ہندوستان بڑی قربانیوں کے بعد آزاد ہوا ہے اور وہ اس معاملے میں ہر اس ملک کا ساتھ دے گا جو اپنے ملک کی آزادی کی جدوجہد میں سرگرداں ہے۔فلسطینی اپنی آزادی اور اپنے جائز مقاصد کے حصول کے لیے اسرائیل سے نبردآزما ہیں، اس لیے ہندوستان فلسطینیوں کی نہ صرف حمایت کرتا رہا بلکہ بین الاقوامی فورموں میں اس کے حق میں منظور کی جانے والی قراردادوں کی بھی تائید کرتا رہا۔ ہندوستان کے انصاف پر مبنی موقف کی عالمی سطح پر ستائش کی جاتی رہی۔ہندوستان اپنی دیرینہ روایات پر قائم رہتے ہوئے موجودہ حالات میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرتا تو فلسطین میں یہ بدترین حالات پیدا نہ ہوتے۔لیکن ہندوستانی حکومت نے اپنی سابقہ اعلیٰ روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ظالم اور مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا۔
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کا یہ موقف کہ وہ اسرائیل کی جارحانہ کارستانیوں کو دیکھتے ہوئے بھی اس کی ہمت بڑھائے اور اس کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے کا اعلان کرے تو ایک افسوسناک عمل ہے جس کی خود اہل ملک کی ایک بڑی اکثریت مذمت کررہی ہے۔ملک کے وزیراعظم نے حماس کی جانب سے ردعمل کے طور پر کی جانے والی کارروائی کے فوری بعد اسرائیل کو اپنی حمایت دینے کا اعلان کردیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو کو تسلی دیتے ہوئے مصیبت کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ ہونے کا یقین دلایا،لیکن وزیراعظم نریندر مودی کیا یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ حماس کی کارروائی کے بعد اسرائیل نے فلسطینیوں پر کس انداز سے بھیانک حملے شروع کردیے۔ اسرائیل کے وحشیانہ حملوں سے آج پورا غزہ کا علاقہ قتل گاہ بن چکا ہے۔ہر طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی ہیں۔ اسرائیل کی ظالم فوج بچوں اور خواتین پر بھی بم برسا کر ان کی زندگیوں کو ختم کررہی ہے۔اسرائیل کی فوجی کارروائی کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں عوام احتجاج کررہے ہیں، لیکن ہندوستان کی حکومت کو یہ ظلم اب بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ اسرائیل کی دوستی نے ہندوستانی حکمرانوں کو شاید یہ دیکھنے کا موقع بھی نہیں دیا کہ جس قوم کی وہ تائید کررہے ہیں وہ کتنی ظالم قوم ہے۔اسرائیل نے جب سے فلسطین میں قدم رکھا ہے اس نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکالنے کی سازشیں کی ہے۔ کانگریس کی سابق صدر اور کانگریس پارلیمانی پارٹی کی قائد سونیا گاندھی نے اپنے ایک مضمون میں جو 30/اکتوبر 2023 کو ہندوستان کے معروف انگریزی اخبار ”دی ہندو“ کے ادارتی صفحہ پر شائع ہوا ہے، کھل کر کہا ہے کہ انصاف کے بغیر امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔اسرائیل نے گزشتہ ایک دہے سے غزہ کی ناکہ بندی کرکے اسے ایک کھلی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔سونیا گاندھی نے لکھا کہ اسرائیل غزہ میں پانی،بجلی اور طبی امداد کو بند کرکے 2.2ملین آبادی کو اجتماعی سزا دے رہا ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں بی جے پی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ جنگ بندی سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد کے موقع پر ہندوستان کی غیر حاضری انصاف کے تقاضوں کے عین خلاف ہے۔حکومت کا یہ اقدام ملک کے امیج کو متاثر کردے گا۔انہوں نے لکھا کہ اس وقت انسانیت کا مستقبل داؤ پر ہے۔ایسے وقت ہندوستان کو امن و انصاف کے قیام کے لیے جراتمندانہ اقدامات کرنے ہوں گے۔اب جب کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم سے ساری دنیا خطرہ محسوس کررہی ہے، اب کم از کم ہندوستان کو اپنے موقف پر نظر ثانی کرتے ہوئے ظالم اسرائیل کے خلاف ہر محاذ پر آواز اٹھانی ہوگی اور مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دینا ہوگا۔ورنہ تاریخ میں ہندوستان کا نام بھی ان قوتوں کے ساتھ لکھا جائے گا جو ظالم کی طرفدار رہیں اور مظلوموں پر ہوتے ہوئے ظلم کو دیکھ کر بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔بی جے پی حکومت ملک کے انصاف پسند عوام کے جذبات اور احساسات کو نظرانداز کرکے غاصب اسرائیل کی تائید کرتی ہے تو اس کا خمیازہ اس کو 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں بھگتنا پڑے گا۔
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *