[]
رشید پروین
امریکی صدر جو بائیڈن کی دوڑیں اسرائیل تک لگ چکی ہیں،اردن نے کسی طرح ہمت کا مظاہرہ کر کے جو بائیڈن کے چہرے پر یہ کہہ کر کالک پوت دی کہ یہاں فی الحال آپ کا داخلہ بند ہے،اب صیہونی لابی کی طرف سے ایک وفد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملا ہے اور یو این او میں بھی اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کے قتل عام پر بحثیں جاری ہیں، لیکن اسرائیل کی سر پرستی بھی جاری ہے اور امریکہ اس ناجائز اولاد کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر بھی آسانی سے لگا سکتا ہے، لیکن کیوں؟ ہم اس کا جواب ڈھونڈنے کی مدلل اور منطقی کوشش کریں گے۔
در اصل اسرائیل وہ جادوئی طوطا ہے جس میں امریکی جان اٹکی ہوئی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسرائیل کا موقف، اسرائیل کا طرز طریق، انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں اورانسانی اقدار کا قاتل اور کھلے عام جنگی مجرم ہونے کے باوجود امریکہ، بس ٹیپ ریکارڈر کی طرح یہی ایک جملہ دہرا رہا ہے کہ ”ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس معاملے میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں“، یہ بائیڈن کی بات نہیں اگر ٹرمپ ہوتے تو ان کا رد عمل بھی یہی ہوتا اور ابھی مستقبل میں جو بھی وائٹ ہاوس میں مقیم ہوگا اس کے لئے بھی سب کچھ سمجھتے ہوئے اور جانتے ہوئے اس راستے کے بغیر کوئی اور راستہ نہیں بچتا کہ وہ اس ناجائز اولاد کو اپنے سینے سے لگا کر زمانے کے سر د وگرم کو خود سہتے ہوئے لاڈ پیار سے پرورش کرتا رہے ۔ در اصل یہ ایک ایسا پھڈا ہے جسے دنیا کے عوام کی اکثریت نہیں سمجھتی اور ہمارا دعویٰ ہے کہ اس کا پسِ منظر سمجھے بغیر اس بات کو نہیں سمجھا جاسکتا اور جب اس کا پس منظر نگاہوں کے سامنے واضح ہو تو اس گورکھ دھندے کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔
یروشلم میں امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کی افتتاحی تقریب پر ٹرمپ کے سفیر پادری جان ہیکی کے اس بیان کو ذہن میں رکھیے ”اب ہمیں اس سر زمین میں مسیحا کے نزول کی بات کرنی چاہیے۔ میں آپ سے جھوٹ نہیں بولتا کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کی خارجہ پالیسی اسی ”بشارت“ سے اخذ کی جاتی ہے“ یہ تھے جان ہیکی کے الفاظ۔ یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ سابقہ کئی امریکی صدور نے کھل کرعراق۔ ایران،افغانستان اور شام کی جنگوں اور ان ممالک کی تباہی کو صلیبی جنگوں سے تعبیر کیا ہے۔ اس لئے خوابوں کی دنیا میں رہنے سے بہتر یہ تھا کہ عرب ممالک اور عالم اسلام یہ بات سمجھ لیتے کہ گریٹر اسرائیل اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں صیہونی کسی بھی طرح کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، مسلم ممالک کو پشت بہ دیوار اور انتہائی لاغر اور کمزور کرنے کا عمل جاری رکھا جائے گا تاکہ یہ ممالک خود ہی اس سارے خطے میں اسرائیل کی سپر میسی تسلیم کرکے ان کے رحم و کرم پر ہوں اور ا نہیں اتنا اور اس قدر مارا جائے کہ گریٹر اسرائیل کی تشکیل میں کوئی طاقت چھوٹی یا بڑی مزاحمت نہ کر سکے،یہ عمل مسلسل جاری ہے اور دنیا کا کوئی بھی ابھرتا ہوا مسلم ملک دنیا کے نقشے پر صحیح و سالم نہیں رہا اور ایک واحد ایٹمی پاور پاکستان اس وقت ایک عجیب و غریب ملک ”’جوکروں‘کی بستی‘ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ آ ج نو بت یہاں تک پہنچی ہے کہ یہ ”جوکر“اس شخص کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر بٹھانا چاہتے ہیں جس کے ساتھ دس پرسنٹ عوام بھی نہیں،جو مجرم اور مفرور بھی تھا، یہ بھی امریکی کرشمہ سازی ہی ہے کہ فوج اس کے ساتھ ہے۔اور یہ شخص اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کرنے، بلکہ ڈالروں کے عوض ایٹمی اثاثے بھی منجمد کرنے کا وعدہ دے کر پاکستان پدھار چکا ہے۔
بہرحال جنگ عظیم کے خاتمے پر برطانیہ نے اسرئیلی بچے کو جنم دے کر اس کی پرورش شروع کی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یاجوج ماجوج یہی لوگ ہیں اور دجال کی آماجگاہ بھی ایک مختصر مدت تک یہی رہی،،اور یہ یاجوج ماجوج دنیا کے مختلف ممالک سے فلسطین میں جمع ہورہے ہیں (دجل کا مطلب ہی فتنہ و فساد ہوتا ہے) ایک معین مدت کے بعد جب برطانیہ کے سپر پاور ہونے کا تاج چھن گیا اور اس کی جگہ امریکہ نے لی تو اسرائیل کی سر پرستی بھی امریکی پاور، اور”دجل“نے قبول کی اور اب تک اس طرح یہ ذمہ داری نبھا رہا کہ اپنے مفادات اور اپنی شبیہہ سے بھی اوپر ”اسرائیل“۔ امریکی ترجیحات میں ہے۔
آپ اس ساری کہانی کو ۱۹۴۸،جب سے اسرائیل کا وجود نقشے پر ظاہر ہوا ہے یو این او قرادادوں سے جان سکتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ اپنے اس طوطے کو سونے کے دانے دے کر اتنی امداد ہر سال فراہم کرتا ہے جتنی کہ وہ سارے ممالک کو فراہم کرتا ہے اور پھر پچھلے دروازوں سے اسرائیل کیا حاصل کرتا ہے یہ کبھی معلوم نہیں پڑتا، یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکہ میں کئی تھنک ٹینک ہیں جو اقتدار اعلیٰ پر دسترس رکھتے ہیں بلکہ یہ تھنک ٹینک بنیادی طور پر وہ ایجنسیاں ہیں جو امریکی پالیسیاں ترتیب دیتی ہیں۔ اکثر لوگ ان تھنک ٹینکوں کی اصل اور ان کے اندر دوڑتی ہوئی روح کو سمجھنے سے بہت ہی قاصر اور محروم ہیں کیونکہ ان کے خواب و خیال میں بھی امریکہ کے اصل حقائق نہیں، اس لئے سب سے پہلے مختصر طور پر آپ کو اس بات سے آشنا ہونے کی ضرورت ہے یہ پا یسی ساز ادارے کون ہیں اور اصل میں پینٹگان کے اندر کس طرح کی جان دوڑ رہی ہے؟،کچھ کتابیں امریکی مارکیٹ میں وقتاً فوقتاً آچکی ہیں جو امریکی انداز فکر اور پینٹگان سے ہمیں متعارف کرانے کے لئے کافی ہیں ان میں ()the international jew)()zionist protocol))(powns in the game)(world con qurors)اور اس طرح کی بہت ساری مشہور و معروف کتب ہیں لیکن ان سب میں ایک اورنام جسے شہرہ آفاق کہا جاسکتا اور جس کے چھاپنے کی ہمت دو برس تک کسی امریکی پبلشر نے نہیں کی، اور آخر جب چھپی بھی تو چوبیس گھنٹوں کے اندر تمام کتب اسٹالوں سے پراسرار طور پر غائب کی گئیں، یہ کتاب ایک بہت ہی مشہور امریکی سفارت کار ( پال فنڈلے) کی تصنیف ہے۔پال فنڈلے کو مڈل ایسٹ اور امریکہ دونوں جگہوں پر بڑی عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا،اس کتاب کا نامthey dare to speak out ہے اور اس کتاب کو بڑی برق رفتاری کے ساتھ تمام صیہونی لابیوں نے مارکیٹ سے غائب کردیا تھالیکن اس کے باوجود یہ ۹ ہفتوں تک بیسٹ سیلر کا ریکارڈ قائم کر گئی،اور کئی بک اسٹالوں پر لوگوں نے اس کی عدم دستیابی کے لئے پتھراؤ کیا۔
بہر حا ل اس مختصر سے تعارف کے بعد میں یہی کہوں گاکہ اس طرح کی کتابیں امریکی مارکیٹ میں اس لئے نہیں آتیں اور اگر کسی طرح آبھی جاتی ہیں توبہت ہی کم عرصے میں نایاب ہوجاتی ہیں کہ حقائق کے افشا ہونے کا خوف صیہونی لابی کی نیندیں حرام کرتا ہے۔ امریکی ذمہ دار ادارے بھی اپنے عوام سے جوابدہی کے خوف سے بچنے کے لئے خاموشی ہی میں اپنی عافیت سمجھ لیتے ہیں۔ صیہونی لابی تمام امریکی ڈیپارٹمنٹس اور کلیدی اہمیت کے محکموں میں اپنی بالادستی کسی بھی طرح امریکی عوام میں مشتہر ہونے کے خلاف ہے اور اس مذکورہ کتاب میں ’پال فنڈلے‘ نے امریکی عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا، کہ یہاں راج کس کا چلتا ہے؟، یہاں کی تمام پالسیاں محض اسرائیل کے مفادات میں ہی کیوں بنتی ہیں؟ یہی تو پادری جان ہیکی بھی کہتے ہیں،زمانے کے نشیب و فراز نے اس کتاب کے حقائق اور حالات و واقعات پر کوئی اثر نہیں ڈالا ہے اور نہ اس کی اہمیت کم کی ہے ، اس کتاب کے مطابق یونیسیکو کے ۶۲ شعبوں پر صیہونی غلبہ ہے، آئی ایم ایف کے سب سے بڑے عہدے دار فری میسن یہودی ہیں، (فری میسن ایک اپر گراونڈ اور انڈر گراونڈ دونوں طرح کی انتہائی خطرناک تنظیم ہے) امریکہ کے اعلیٰ ترین ۸۵ سب سے بڑے عہدے داروں میں جو امریکہ کو چلاتے ہیں ۵۶ عہدے دار فری میسن صیہونیوں سے ہیں، اس سے یوں بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی آفیسراں اس لابی سے کیوں خوفزدہ ہیں اور کیوں ان کے خلاف اف تک نہیں کر سکتے، ان پچھلے بیس پچیس برسوں میں یہ لابی کہاں سے کہاں آگئی اس کا اندازہ ٹرمپ، ٹرمپ کے داماداور اب جو بائڈن کی اسرائیل نوازی سے لگائی جاسکتی ہے،، پینٹگان دریائے پوٹو میک کے کنارے پر ایک وسیع و عریض بلڈنگ ہے،اور اس کے اندر امریکہ کے کئی کلیدی اور مرکزی ہیڈ کوارٹر ہیں، اور اسی میں امریکی فوج کی ہائی کمان کے دفاتر بھی ہیں اور امریکہ سے متعلق تمام راز اور رازداریاں بھی اسی ہیڈ کوارٹر سے منسلک ہیں، اسی دریائے پوٹو میک کے دوسرے کنارے پر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ہے جو کہ دنیا بھر میں پھیلے امریکی قومی سفارتی مراکز کا مرکزہے، ان عمارات میں وہ ذرائع ہیں جن میں سے لاکھوں خفیہ پیغامات آتے جاتے رہتے ہیں،اور یہی ادارے امریکی اسٹیٹ کے رازدار اور نگہباں تصور کئے جاتے ہیں اور یہاں سے ہی تمام دوسری دنیا کے لیے خارجہ حکمت عملیاں وضع کی جاتی ہیں۔
” پال فنڈلے“نے اپنی ضخیم کتاب میں امریکی عوام اور عہدے داروں پر واضح کیا تھا کہ ان کے سارے پیغامات آتے جاتے اسرائیل کے ہیڈ کوراٹر پر امریکی ڈیپارٹمنٹوں سے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔ ان انکشافات سے امریکہ میں جو تہلکہ مچا تھا، اس کا اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ میں اس کتاب سے مختصر دو تین واقعات کوٹ کروں گا تاکہ آپ اچھی طرح سے یہ سمجھ سکیں کہ امریکی پھڈا کیا ہے اور صیہونی لابیوں نے سارے امریکی سسٹم کو کیسے اور کیوں کر یر غمال بنایا ہوا ہے کہ اصل امریکن اف تک نہیں کر سکتے۔ اگلی قسط میں حیرت انگیز انکشافات کا ملاحظہ کیجئے۔
٭٭٭