[]
محمد جاوید احمد قاسمی ابن عثمان
نیو ملک پیٹ اکبر باغ حیدرآباد
ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شریک حیات سمجھدار ہو ہم مزاج ہمدرد ہو کبھی لڑائی جھگڑا نہ ہو دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے والے ہو یہ خواہش ہر مرد اور عورت میں پائی جاتی ہے لیکن جیسا ہم چاہتے ہیں ویسا ہوتا نہیں اور کیوں نہیں ہوتا اس لیے نہیں ہوتا کہ ہم نے ان رشتوں کو نبھانا جانا ہی نہیں ہم اس ہنر سے واقف ہی نہیں ہے جس سے رشتے نبھائے جا سکتے ہیں یاد رکھیے ہر چیز کو نبھانے کے کچھ اصول ہوتے ہیں ان اصولوں کو اختیار کرنے کے بعد جیسا آپ چاہتے ہیں ویسا ہی نتیجہ نظر آئے گا۔
چلیں آج ہم اس اصول کو ایک کہانی سے سمجھتے ہیں ایک میاں بیوی دونوں کی شادی کو 60سال گزر چکے ہیں ساٹھ سالوں میں انہوں نے ایک دوسرے سے کوئی بھی بات نہیں چھپائی تھی وہ ہر بات ایک دوسرے سے ظاہر کرتے تھے کوئی بات چھپاتے نہیں تھے صرف ایک راز کو چھوڑ کر جو اس بزرگ خاتون نے اپنے شوہر سے چھپا کر رکھا تھا وہ راز تھا جوتے کا ڈبہ جو اس نے الماری کے اوپر رکھا ہوا تھا شادی کے پہلے دن سے اس عورت نے اپنے شوہر سے کہہ رکھا تھا کہ جب تک میں نہ کہوں تب تک آپ اس جوتے کے ڈبے کو ہاتھ نہیں لگائے گے شوہر نے بھی اپنی بیوی کی بات کا لحاظ رکھا اور کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اس ڈبے میں کیا ہے۔
ایک دن کی بات ہے کہ اس کی بیوی کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی اتنی زیادہ خراب کے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا اور کہہ دیا کہ آپ کو جو کہنا اور سنا ہے کہ لیجئے سن لیجئے اب وقت نہیں بچا ہے ہو سکتا ہے آپ کو آگے وقت نہ ملے شوہر کو لگا کہ اچھا موقع ہے کہ میں اپنی بیوی سے اس جوتے کے ڈبے کے بارے میں پوچھ لوں جس کو میں نے60 سالوں سے ہاتھ نہیں لگایا آخر میں کم از کم یہ جان تو لو کے اس جوتے کے ڈبے میں ہے کیا چیز یہ سوچ کر وہ جوتے کا ڈبہ لے کر اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اب تم مجھے بتا ہی دو کہ اس جوتے کے ڈبے میں کیا چیز ہے جو کہ تم نے مجھ سے اتنے سالوں سے چھپا کر رکھا ہے۔
اس پر وہ بزرگ خاتون کہتی ہے کہ آپ ذرا اس ڈبے کو کھول کر تو دیکھیے اس میں کیا چیز ہے شوہر نے ڈبہ کھولا اس نے دیکھا کہ اس ڈبے میں چھوٹے بچوں کے دو اون کے بنے ہوئے سویٹر رکھے ہوئے تھے ان سویٹروں کو بہت ہی خوبصورتی سے بنا گیاتھا اس پر خوبصورت ڈیزائن کی ایمبرائیڈری بھی تھی اور ساتھ میں اسی ڈبے میں آٹھ دس لاکھ روپے پڑے ہوئے تھے شوہر نے دیکھ کر حیرت سے پوچھا بس کیا تم مجھ سے یہی چیزیں چھپا رہی تھی ظاہر سی بات ہے کہ اس کے شوہر کو مالدار ہونے کی وجہ سے پیسوں کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی ان چھوٹے بچوں کے سویٹر میں اس کی کوئی دلچسپی تھی اس نے حیرت سے پھر پوچھا مجھے ماجرہ سمجھ میں نہیں آیا تم نے یہ چیزیں آج تک مجھ سے چھپا کر رکھیں کیوں ہے۔
اس بزرگ خاتون نے بڑے پیار سے کہا کہ میں آپ کو سارا ماجرہ سمجھاتی ہوں آپ کو پتہ ہے جب ہماری شادی ہوئی تھی تو میری نانی نے خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کا اک راز بتایا تھا کہ جب بھی شوہر پر کسی بھی بات پر غصہ آئے تو لڑائی جھگڑا مت کرنا جس وقت غصہ آئے ایک کام کرنا وہ یہ کہ تم اون کے سویٹر بنے میں اپنا وہ وقت صرف کر دینا سارا دھیان اسی طرف لگا دینا اس وقت میں نے اپنے نانی سے یہ سوال کیا آپ کی شادی شدہ زندگی کے خوشحال ہونے کا راز یہی ہے۔
انہوں نے کہا ہاں بیٹی میرے شادی شدہ زندگی کے خوشحال ہونے کا راز یہی ہے پھر میں نے ان سے پوچھا آپ کو یہ نصیحت کس نے کی تھی انہوں نے کہا کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کی حالت میں کیا کرنا ہے اپنی امت کو بتایا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کی حالت میں تین باتوں کا خیال رکھنے کا حکم فرمایا اور ان تین باتوں کے کرنے کا حکم فرمایا پہلا کہ جب غصہ بہت زیادہ آئے تو پانی پی لیا کرو دوسرا وضو کر لیا کرو تیسرا اپنی حالت کو تبدیل کر لیا کرو بیٹھے ہوئے ہیں تو لیٹ جاؤ لیٹے ہوئے ہیں تو بیٹھ جاؤ یا کھڑے ہو جاؤ میں نے تمہیں جو نصیحت کی ہے وہ اس نصیحت کا تیسرا حصہ ہے یقینا اس میں حکمت ہے حکمت یہ ہے کہ جب آدمی اپنی پوزیشن اور حالت بدل لیتا ہے تو یقینا اس کا ذہن اس طرف متوجہ ہو جاتا ہے جس طرف وہ خود کو تبدیل کرتا ہے اور غصہ ذہن میں ہی پیدا ہوتا ہے۔
ذہن کو جب کسی ایک کام میں مصروف کر دیتے ہیں تو وہ غضب والے کام سے بچ جاتا ہے یہ سارا واقعہ شوہر نے سنا اور وہ بہت ہی زیادہ متاثر ہوا لیکن اس نے پوچھا کیا میں نے پوری زندگی میں صرف دو مرتبہ تمہیں ناراض کیا ہے صرف دو دفعہ تم کو مجھ پر غصہ آیا ہے کیونکہ تمہارے اس ڈبے میں دو ہی سویٹر ہے پھر پوچھا کہ اچھا ان سویٹروں کا تو سمجھ آیا لیکن ان پیسوں کا راز سمجھ میں نہیں آیا یہ پیسے تمہارے پاس کہاں سے آئے بیوی نے کہا جب بھی ناراض ہوتی تھی یا غصہ آتا تھا تو اس وقت میں ڈھیر سارے سویٹر بننا شروع کر دیتی تھیں انہیں ڈھیر سارے سویٹروں کا پیسہ ہے جس کو میں نے فروخت کرکے جمع کیے ہے۔
اس واقعے سے ہمیں کون سے سبق حاصل ہوئے۔
نمبر ایک جب بھی منفی جذبہ ہمارے دل و دماغ میں پیدا ہو جائے وہ ہمیں نقصان ہی پہنچائے گا اس لیے اس کو فائدے کی طرف منتقل کر کے فائدہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ خاتون نے کیا ہے۔
نمبر دو راستے میں جب دو گاڑیاں چلتی ہے تو ان دونوں کے درمیان میں ٹکراؤ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک دونوں آپس میں فاصلہ بنا کر رکھتے ہیں اس لیے کسی ایک گاڑی کو کم از کم فاصلہ بنا کر رکھنا ہی پڑتا ہے اسی طرح ہم رشتے میں یہ طے کر لے کہ جب بھی غصہ ائے گا تو کسی ایک کو خاموش ہونا ہے اور اس وقت فاصلہ بنا کر رکھنا چاہیے۔
نمبر تین جب بھی ہم کسی کردار میں جائے شوہر کے کردار میں جائے بیوی کے کردار میں جائے تو اس کردار میں جانے سے پہلے اس کردار کے تمام لوازمات اور اصول کو جان لینا ضروری ہے محبت کن اصولوں سے پیدا ہوتی ہے اور باقی رہتی ہے نفرت کن اصولوں کے چھوڑنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور پروان چڑھتی ہے اور رشتہ کو خوشگوار بنانے کے لیے کون سے اعمال کرنے چاہیے ان ساری باتوں کا میاں بیوی کو علم ہونا چاہیے۔
نمبر4 جس طرح زمانے قدیم میں میں بزرگ حضرات و خواتین اپنے چھوٹوں کو دینی نصیحتیں کیا کرتے تھے اور بالخصوص جن لڑکیوں کی شادی ہوتی تھی ان کو نصیحت کی جاتی تھی آج بھی اس رواج کو جنم دینے کی سخت ضرورت ہے۔
٭٭٭