[]
مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)
تحفظِ ناموسِ رسالت وبقائے قوانین ِ اسلامی ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے باطل کی طرف سے ان کی مخالفت میں ہر اٹھنے والی آواز وعمل کا سدِ باب اہل اسلام کا اہم فریضہ ہے۔ اس ذمہ داری کا احساس تب ہی ممکن ہے جبکہ اہل ایمان کے قلوب محبت ِ رسول وعظمت ِ رسول سے کامل سرشار ہوں۔ فطری تقاضہ بھی یہی ہے کہ انسان جن سے محبت کرتا ہے ان کی خاطر سب کچھ لٹا نے لگتا ہے یہاں تک کہ بسا اوقات اپنی جان تک بھی قربان کر نے تیار ہو جاتا ہے۔ اگر محبت میں تھوڑی بھی کمی ہو تو وہ اپنے محبوب سے اس طرح بے پرواہ ہوتا ہے کہ گویا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ نے تاکید کے ساتھ اللہ ورسول کی محبت کا ایسا انوکھا درس دیاکہ انسان کو عموماً فطری طور پر جن جن چیزوں سے محبت ہوتی ہے ان کو قرآن کریم میں ایک طرف ذکر کیا پھر ان کے مقابل میں صیغہ اسم تفضیل کے ساتھ اللہ ورسول کی محبت کو ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ کائنات کی کوئی بھی چیز اللہ ورسول کی محبت پر غالب نہ ہو ورنہ اللہ کے حکم کا انتظار کرو (یعنی عذاب الٰہی کا) چنانچہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُلْ إِن کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْْکُم مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِہِ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْن (سورہ توبہ) ’’(اے پیغمبر ؐ ! مسلمانوں سے) کہدو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور تمہارے رہنے کے مکانات جن کو تم پسند کرتے ہو (اگر یہ ساری چیزیں) تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیاری ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیجے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ قرآنی اصول کے تحت مسلمانوں کے دلوں میں اللہ ورسول کی محبت وعظمت نقش کرجائے تو دنیا کی کوئی باطل طاقت اسلام وبانی ِاسلام کی بے ادبی وگستاخی کی جرء ت نہیں کرسکتی اس نعمت عظمیٰ کے مقابل میں نہ کوئی قوت ہے نہ کوئی پاورہے۔
صحابہ کرام کے حُبِّ رسول وعظمت ِ رسول ہی کی بدولت اسلام کو دن بدن عروج ملا، اس بیش بہا دولت کے سامنے باطل کی ساری ظاہری طاقتیں ہیچ ہیں، صلح حدئبیہ کے موقع پر عاشقانِ رسول ؐ کی تعداد صرف چودہ سو(۱۴۰۰یا ۱۵۰۰) تھی، ان میں بھی عورتیں ‘ بچے اور بزرگ حضرات تھے یہ سب صحابہ رسولِ اکرم ﷺ کی معیت میں عمرہ کی غرض سے بے سر وساماں بغیر ہتھیار واسلحہ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تھے، مگر مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو بیت اللہ میں داخل ہونے سے روک دیا اس وقت مکہ مکرمہ میں کافروں کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی اور جنگی سامان ‘ لشکر‘ ہتھیار‘ تلواریں اور نیزے ان کے پاس تھے، حملہ کرنے کی جگہ اور پناہ گاہیں ان کے مکانات تھے، مسلمانوں سے جذبہ عداوت عروج پر تھا ایسے ماحول میں اہل شرک میں سے ایک شخص عروہ بن مسعود ثقفی جو مشرکین کی جانب سے قاصد تھا اس نے اپنے ہی ساتھیوں سے کہا تم مسلمانوں کا ہرگز مقابلہ نہیں کرسکتے مشرکین مکہ جو دشمنی کی آگ میں جل رہے تھے کہا کیوں ہم ان سے مقابلہ نہیں کرسکتے؟
تعداد میں ہم ان سے بڑھکر ہیں ‘ ہتھیار اور تلواریں ہمارے پاس ہیں، اس وقت حکومت ہماری ہے، ظاہری جنگی طاقت وصلاحیت ہمارے پاس ہے تو اس نے کہا کہ ان کے پاس جو چیز ہے آج دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ ان کے پاس ان کے نبی کی محبت وعظمت ہے، وہ اپنے نبی محمد عربی ﷺ کی خاطر اپنی جانیں تک قربان کرنے تیار رہتے ہیں، چنانچہ بخاری ومسلم میں ہے: صحابہ کرام ؓ آقائے دوجہاں ﷺ کے گرد اس طرح جھرمٹ بنا کر بیٹھے ہیں جس طرح شمع کے گرد پروانے ہوتے ہیں، عروہ بن مسعود نے کہا حتیٰ کہ میں یہ منظر دیکھتا ہوں: واذا تو ضأ کادوا یقتتلون علی وَضوئہ (بخاری) جب آقائے دوجہاں ﷺ وضو کرتے تو قریب (اندیشہ ) ہوتا کہ وہ آپ کے وضو کے پانی کے حصول میں آپس میں لڑپڑیں۔ یعنی جب حضور ﷺ وضو کرتے تو صحابہ کرام وضو کے پانی پر ٹوٹ پڑتے ایک ایک قطرے کیلئے دوڑتے اور لپک لپک کر وضو کے پانی کو سنبھالتے آقا ﷺ کے وضو کے پانی کاایک قطرہ بھی زمین پر نہ گرنے دیتے یہ عشاق انہیں اپنے ہاتھوں پر لیتے اور اپنے چہروں اور بدن پر مل لیتے وضو کے پانی کے قطرات کو حاصل کرنے کیلئے ایسے جھپٹتے جسے دیکھ کر یہ اندیشہ ہوتاکہ کہیں آپس میں لڑنہ پڑیں۔
اب اسی سے متعلق شریعت کا مسئلہ بھی سمجھ لینا چاہئے : صحابہ کرام ؓ حضور ﷺ کی محبت وعقیدت میں انتہا درجے تک پہنچے ہوئے تھے اور یہ آپ ﷺ کے وضو کے مائِ مستعمل کے بارے میں ان کے وفور محبت کا منظر ہے کہ وضو کا پانی جو ماء مستعمل کا درجہ رکھتا ہے یعنی طاہر غیر مطہر ہوتا ہے جس کا استعمال مکروہ ہے لیکن عشق کہتا ہے اے اوروں کے وضو کا پانی تو بے شک مکروہ ہو گا لیکن اگر محبوب کے وضو کا پانی بھی نصیب ہو جائے تو وہ دنیا کے تمام پانیوں کی طہارتوں اور نظافتوں سے بھی بالاترہے۔
صحابہ کرام حضور ﷺ سے نسبت رکھنے والی اور آپ کے جسد اقدس سے مس ہونے والی ہر چیز کی بے حد تعظیم کیا کرتے تھے، عروہ بن مسعود جو بعد ازاں دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے تھے، بیان کرتے ہیں: واللہ ان تنخّم نخامۃ الا وقعت في کف رجل منھم فدلک بھا وجھہ وجلدہ ( بخاری) ’’ خدا کی قسم وہ تھوک مبارک نہیں پھینکتے مگر وہ کسی نہ کسی ہاتھ پر ہوتا ہے اور وہ اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ ‘‘ جب کبھی حضور ﷺ نے لعاب دہن اور ناک مبارک سے رطوبت نیچے پھینکی تو صحابہ کرام نے اسے نیچے نہ گرنے دیا بلکہ دوڑے اور اسے ہاتھوں پر لے لیا اور بعد ازاں اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتے۔
جب عروہ بن مسعود نے حدیبیہ کے مقام پر اصحاب رسول ﷺ کے ایمان افروز اور روح پرور مناظر دیکھے تو واپس قریش کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا معشر قریش! اني قد جئت کسری فی ملکہ، وقیصر في ملکہ، والنجاشي في ملکہ، واِني واللہ ما رأیت ملکا في قوم قط مثل محمد ﷺ فی اصحابہ : اے گروہ قریش میںنے بادشاہ روم‘ ایران‘ حبش‘ ہر ایک کو اپنی اپنی مملکت وسلطنت میں شاہی رعب ودبدبہ کی حالت میں دیکھا اللہ کی قسم میں نے ایسا کوئی بادشاہ کسی قوم میں نہ دیکھا جیسے محمد (ﷺ ) کو آپ کے صحابہ میں دیکھا۔ گویا عروہ بن مسعود اہل قریش کو یہ بات سمجھا رہا ہے کہ میں نے بادشاہ روم وایران اور بادشاہ حبشہ کا ادب واحترام ان کے درباروں میں ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں نے دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ وشہنشاہ دیکھے ہیں اور ان کے درباروں میں ان کے آداب ملاحظہ کئے ہیں، امراء ووزراء میں ان کی تعظیم وتکریم اور احترام ہوتے ہوئے دیکھا ہے، سب کچھ دیکھا لیکن اللہ کی عز ت کی قسم آج تک دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے شہنشاہ کی عزت وتعظیم اور ادب واحترام اس قدر ہوتا ہوا نہیں دیکھا جس قدر محمد مصطفی ﷺ کی تعظیم وتکریم اور ادب واحترام آپ کے صحابہ کرام میں ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
عروہ بن مسعود نے مسلمانوں کی اپنے نبی کی ایسی ہی والہانہ محبت وعظمت دیکھ کر کہا یہ و ہ طاقت ہے جس کے سارے ہتھیار ساری تلواریں ساری ظاہری طاقتیں ہیچ ہیں آج ہمارے دلوں سے روحِ ایمانی ‘محبت رسول وعظمت رسول کی دولت نکل گئی، اسی لئے ہمیں سارے عالم میں ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اگر ہمارے دل عشقِ خدا وعشق ِ رسول سے سرشار ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اہل اسلام کا مقابلہ کر سکے، صحابہ کرام کی نبی کریم ﷺ سے جو محبت تھی سابقہ امتوں میں ایسی مثال نہیں ملتی چنانچہ جنگ احدکے موقع پر حضرت سعد بن ربیع کے الفاظ سنہری الفاظ میں لکھے جانے کے قابل ہیں:
حضرت سیدنا سعد ؓ بن ربیع غزوۂ احد میں شدید زخمی ہوگئے، بارہ نیزے ان کے جسم کے آرپار ہو گئے، حضور ﷺ نے اپنے جاں نثاروں سے فرمایا کہ سعد بن ربیع کی خبر کون لائے گا تو حضرت ابیؓ بن کعب حضرت سعدؓ بن ربیع کی تلاش میں نکلے لیکن ان کا سراغ نہ مل سکا، حضور ﷺ کے حوالے سے انہیں میدان جنگ میں آواز دی تو انہوں نے جواب دیا لیکن زبان لڑکھڑا رہی تھی، صحابی رسول نے جب انہیں بتایا کہ مجھے حضور ﷺ نے تمہاری طرف بھیجا ہے تو حضور ﷺ کے اس غلام کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور نحیف آواز میں فرمایا کہ میرے آقا ﷺ کی خدمتِ اقدس میں میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ حضور آپ کے غلام کو نیزے کے بارہ زخم لگے ہیں اور انصار سے کہنا کہ چوکس رہیں اگر آقا ﷺ کو کچھ ہوا اور تم میں سے ایک بھی زندہ بچا تو قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں کس منہ سے جائو گے، دیکھو! میں نے حضور ﷺ کے قدموں پر جان قربان کرنے کا عہد کیا تھا، اور پھر خلعتِ شہادت نے جاں نثارِ مصطفی کو اپنے اندر چھپالیا گو یا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اپنے خاندان کے ہر فرد : مرد، جوان، بچہ، بوڑھا، عورت سب کو حضور ؐ کی حفاظت میں قربان کرتے چلے جائیں۔
اسی طرح غلامانِ مصطفی ﷺ کا ہر عمل عشقِ رسول کا مظہر ہوتا آقائے محتشم ﷺ کی محبت میں اپنی ذات کو بھی بھول جاتے اس لئے کہ صحابہ ؓ نے تحفظ ناموس رسالت کا عہد نامہ اپنے خون سے تحریر کیا تھا، روایات میں مذکور ہے کہ غزوۂ احد میں حضور رحمتِ عالم ﷺ زخمی ہوگئے، خوَد (لوہے کی جنگی ٹوپی) کی کڑیوں نے رخسار مبارک زخمی کردئیے، یہ دیکھ کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے خدمتِ اقدس میں پہنچے، حضرت ابو عبیدہ ؓ بن جراح نے آگے بڑھ کر رخسارِ اقدس سے خوَد کی کڑیوں کو نکالا۔
پہلی کڑی نکالی تو زور سے پیچھے گر پڑے اور ان کا ایک دانت ٹوٹ گیا، لیکن شمع رسالت کے پروانے نے اپنے زخمی ہونے کی پروانہ کرتے ہوئے رخسارِ اقدس سے خوَد کی دوسری کڑی بھی نکال لی اور اس زور سے اس کڑی کو کھینچا کہ ایک بار پھر گر گئے اور دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا زبان ِ حال سے گویا ہوئے کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ تو محض میرے دو دانت ہیں جو شہید ہوئے ہیں آپ کے قدموں پر گر کراگر جان بھی دے دوں تو میرے لئے اس سے بڑھ کر کوئی اعزاز نہیں ہوگا۔
محافل میلاد منعقد کرنے اور سیرت النبی ؐ کے سننے اور سنانے اور سردارِ کائنات ؐ کی نعت ومدحت اور سننے سنانے کیلئے جلسہ وجلوس کا اہتمام و انعقاد کرنے سے عظمت رسول ومحبت رسول میں اضافہ ہوتا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ میلاد پاکؐ کے موقع پر یہ تمام امور اور غریبوں کو کھانا اور اہل اسلام کے دلوں میں ان کے اعمال وافعال کے ذریعہ خوشی اور مسرت داخل کرنا جائز اور مستجسن عمل ہے۔ میلاد کے اجتماعات اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کابہترین ذریعہ ہیں اور یہ لمحات درحقیقت فرصت کے زرین اور قیمتی لمحات ہیںجنہیں ہر گز ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ مبلغین اور اہل علم حضرات کیلئے تو لازم ہے کہ وہ ان محافل کے ذریعہ امت مصطفی کو اخلاق و آداب نبوی، سیرت طیبہ، معاملات وعبادات نبوی، جیسے اہم امور یاد دلاتے رہا کریں اور لوگوں کو بھلائی، نیکی اور خیر وفلاح کی تلقین کرتے رہیں اور پھر انہیں امت مسلمہ پر نازل ہونے والی مصیبتوں اور امت محمدیہ کو کمزور اور بے جان بنادینے والی گمراہیوں، اسلام میں پیدا ہونے والے نت نئے فتنوں اور اپنوں اور بیگانوں کے اٹھائے ہوئے نئے شرور اور فتن سے دور رہنے اور ان سے اپنے آپ کو بچانے کی ہدایت کیا کریں۔
بارگاہِ ایزدی میں دعاء ہے کہ وہ اہل اسلام کے دلوں کو اپنی اور حضور پاک ﷺ کی محبت سے ہمیشہ سرشار رکھے اور تحفظ ناموس رسالت کی خاطر ہر مسلمان کو مر مٹنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭