[]
چار جماعتی اتحاد کے اندر تارکین وطن کو روکنے کے مسئلہ پر “ناقابل تسخیر” اختلافات کے باعث ہالینڈ حکومت گر گئی۔ اس مسئلے نے پورے یوروپ کی قوموں کو منقسم کیا ہوا ہے۔ ہالینڈ کے سب سے طویل عرصے تک رہنے والے رہنما اور یورپ کے سب سے تجربہ کار سیاست دانوں میں سے ایک ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک روٹے نے کہا کہ چاروں جماعتوں کے درمیان کئی دنوں سے جاری مذاکرات کے بعد بھی کسی حتمی معاہدے پر اتفاق نہیں ہو پایا۔
ہالینڈ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ انتخابات نومبر کے وسط میں ہونے کی توقع ہے۔ ہالینڈ کے سب سے طویل عرصے تک رہنے والے وزیر اعظم کے فیصلے کا مطلب ہے کہ ملک کو اس سال کے آخر میں پارلیمنٹ کی 150 نشستوں والے ایوان زیریں کے لیے عام انتخابات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم، روٹے اور ان کی حکومت اس وقت تک نگراں عہدے پر رہیں گے جب تک کہ نیا حکمران اتحاد منتخب نہیں ہو جاتا۔ حکومت ڈیڑھ سال قبل قائم ہوئی تھی لیکن کچھ عرصے سے تارکین وطن کے مسئلے پر فریقین میں اختلافات تھے۔
روٹے نے کہا کہ “یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ اتحادی شراکت داروں کے مائیگریشن پالیسی پر بہت مختلف خیالات ہیں اور یہ اختلافات ناقابل مصالحت ہیں۔ اس لیے میں فوری طور پر پوری کابینہ کا استعفیٰ تحریری طور پر پیش کروں گا۔‘‘ واضح رہے اپوزیشن جماعتیں نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں اس سے پہلے کہ روٹے نے اپنے استعفیٰ کی باضابطہ تصدیق بیان کی۔
روٹے نے بدھ اور جمعرات کو رات گئے اجلاسوں کی صدارت کی تھی جو مائگریشن کی پالیسی پر ڈیل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ جمعے کی شام بات چیت کے ایک آخری دور میں، فریقین نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ وہ متفق نہیں ہو سکتے اور اس کے نتیجے میں، اتحاد میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
واضح رہے معاملہ صرف ہالینڈ تک محدود نہیں ہے۔ یورپ میں دوسری جگہوں پر بھی اسی طرح کی بحثیں جاری ہیں کیونکہ تنازعات سے فرار ہونے والے یا بہتر زندگی کی تلاش میں آنے والے تارکین وطن شمالی افریقہ سے براعظم تک پہنچنے کے لیے خطرناک سمندری راستے اختیار کرتے ہیں۔ یوکرین میں جاری جنگ سے لاکھوں لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔
روٹے کے اتحاد نے تقریباً 18 ملین افراد کے ملک میں آنے والے نئے تارکین وطن کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے ایک معاہدہ کرنے کی مہینوں تک کوشش کی۔ مبینہ طور پر تجاویز میں پناہ کی دو کلاسیں بنانا شامل ہیں- ایک عارضی تنازعات سے بھاگنے والے لوگوں کے لیے اور ایک مستقل ان لوگوں کے لیے جو ظلم و ستم سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔