[]
مہر نیوز کے نامہ نگار کے مطابق، ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے آج صبح اسلامی اتحاد کی 37ویں بین الاقوامی کانفرنس کے سربراہی اجلاس میں کہا کہ اسلامی اتحاد کے لیے جدوجہد کرنے والے وہ تمام لوگ جنہوں نے قلم کے ذریعے کوشش کی ان کی قدر کرتا ہوں اور اسلامی اتحاد کانفرنس کے انعقاد کے لئے سرتوڑ کوشش کرنے والے احباب اور اس اجلاس میں اظہار خیال کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی اتحاد کا مسئلہ ہمیشہ بہت اہم رہا ہے اور تاریخ اسلام میں اس پر غور کیا گیا ہے۔ عالم اسلام میں اتحاد کی اہمیت پر دن بدن زور دیا جا رہا ہے۔ اتحاد پر توجہ دینا ایک انفرادی اور وقتی معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک فکری نظام اور حق محور تفکر ہے۔
صدر رئیسی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اتحاد کی طرف توجہ ایک جزوی یا انفرادی نظریہ نہیں ہے، مزید کہا: اتحاد ایک فکری نظام ہے جو قرآن کریم اور پیغمبر اکرم ص پر ایمان کو بنیاد اور حق کو مرکز قرار دیتا ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ آج کے اتحاد کا مطلب ادیان یا جغرافیے کا اتحاد نہیں ہے بلکہ امت اسلامیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے اتحاد و اتفاق ہے۔
رئیسی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسلامی تاریخ میں امت اسلامیہ کا اتحاد ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے، کہا: اتحاد اور وحدت کا مسئلہ امت اسلامیہ کے مفادات کا تحفظ اور اسے فروغ دینا ہے۔
انہوں نے بیت المقدس کی آزادی کے لئے جد و جہد کو امت اسلامیہ کا اہم ترین مسئلہ قرار دیتے ہوئے غاصب صیہونی رجیم کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا عالم اسلام کی کسی بھی حکومت کے لیے ایک رجعت پسندانہ عقب نشینی پر مبنی اقدام بتایا۔
رئیسی نے تاکید کی کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا غیر علاقائی اور بیرونی قوتوں کی خواہش ہے۔
حجت الاسلام رئیسی نے خطے کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لبنان اور فلسطین سمیت مختلف خطوں میں ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مقبوضہ علاقوں میں تمام مجاہدین کا آپشن حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کرنا ہے اور مزاحمت کا یہ آپشن دشمن کو پسپائی پر مجبور کر دے گا۔
انہوں نے کہا: “کچھ دن پہلے پاکستان میں شہریوں کو مارا گیا اور وہ (صیہونی) افغانستان میں جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔”
صیہونی حکومت جرائم کا ارتکاب کرتی ہے اور اس نے ملت اسلامیہ کے اتحاد کو نشانہ بنایا ہے۔
صدر رئیسی نے مزید کہا: عالم اسلام کے فکرمند افراد کو ملت اسلامیہ کی ضروریات کے بارے میں مشترکہ فہم ہونا چاہیے۔
آپ سب کا ادراک متکبروں سے نفرت اور عداوت ہے جو کہ یہ ہم سب کا مشترکہ نظریہ ہے۔
انہوں نے اتحاد کو ایک ایسا لائحہ عمل قرار دیا جو ملت اسلامیہ کو دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہونے کے لیے مضبوط بنا سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ مسلمانوں کو ایک نئے اور منصفانہ عالمی نظام کی تشکیل کے لیے اپنی پوزیشن تلاش کرنی چاہیے کہا: مقبوضہ فلسطین اور عالم اسلام کے تمام مجاہدین کے لیے آپشن یہ ہے کہ دشمنوں کے خلاف مزاحمت کریں اور ڈٹ جائیں۔
آیت اللہ رئیسی نے کہا: دشمن تمام میدانوں میں امت اسلامیہ کے خلاف کوشش کرے گا لیکن رہبر معظم انقلاب اسلامی کے فرمان کے مطابق دشمن ایسا چاہا لیکن نہیں کرسکا جب کہ ہم نے چاہا اور کر دکھایا۔
انہوں نے مزید کہا: شام، عراق، یمن، لبنان، فلسطین وغیرہ میں دشمن کی صورت حال (شکست) کا مشاہدہ کریں اور مجاہدین کے حالات (طاقت) کو بھی دیکھیں۔
رئیسی نے ماضی میں فلسطین کے حوالے سے کیے گئے ذلت آمیز معاہدوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: کل تک وہ میز پر بیٹھ کر کیمپ ڈیوڈ اور اوسلوو جیسے معاہدوں پر دستخط کر رہے تھے، لیکن صیہونی دشمن نے ان معاہدوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا لیکن آج حالات مجاہدین کے حق میں ہیں اور یہ امت اسلامیہ کے اتحاد اور مزاحمتی تحریکوں کی ہم آہنگی کی بدولت ہے۔
رئیسی نے عالم اسلام میں اتحاد کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی کہ دشمن کے مقابلے میں اتحاد ہی واحد راستہ ہے۔ اتحاد کے ذریعے ہی ہم دشمن کی ہائبرڈ اور میڈیا وار کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں۔دشمن کی ہائبرڈ جنگ کا جواب اتحاد اور ہم آہنگی ہی ہے۔
صدر رئیسی نے کہا کہ دشمن کا میڈیا اور سامراجیت پسند ٹائیکونز ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنا چاہتے ہیں، جس کا مقابلہ جہاد تبیین کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل کا ذکر کرتے ہوئے کہا: یہ نشستیں اور نظریہ اتحاد ہی عالم اسلام کو ایک نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کے لیے آمادہ کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے اپنا کھویا ہوا مقام پا لیا، اور نئے عادلانہ عالمی نظام میں انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ نیو ورلڈ آرڈر میں امت اسلامیہ کا پوزیشن کلیدی اور اہم ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ مشترکہ اجلاس، صیہونیت، عالمی سامراج اور تسلط کے نظام کے خلاف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم سمجھتے ہیں کہ مجاہدین اور شہداء اسلام کے خون کی برکت سے امت اسلامیہ ایک تاریخی شناخت کی خواہاں ہے اور اس تاریخی خودی کی دریافت اسلامی میں جاری ہے۔
رئیسی نے کہا کہ اتحاد اور ہم آہنگی بہت ضروری ہے کیونکہ عالم اسلام ایک طاقتور دنیا ہے۔ عالم اسلام اپنے جغرافیائی اور تاریخی محل وقوع اور بے شمار وسائل کے ساتھ اپنا عظیم تاریخی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتحاد کا پرچم قائدین نے بلند کیا ہے اور ہم سب کو اس کی دعوت دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم پڑوسیوں اور مسلم ممالک کے ساتھ رابطے کی تلاش میں ہیں۔ انہوں نے ثقافتی سفارت کاری کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو ایشیا و افریقہ، یورپ اور امریکہ کے مختلف ممالک کو آپس میں جوڑتا ہے۔
انہوں نے شہید حج قاسم سلیمانی سمیت عالم اسلام کے شہداء کا تذکرہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ شہید قاسم سلیمانی، شہید انجینئر المہدی اور مختلف اسلامی ممالک میں دیگر شہداء ہمارے لیے ایک بھاری مشن چھوڑ گئے۔ اگر آپ توجہ دیں تو ان کا پیغام ہر جگہ سنا جا سکتا ہے۔ وہ ہم سے یکجہتی، اتحاد، مزاحمت اور مستقبل کی امید مانگتے ہیں جبکہ دشمن ہماری حوصلہ شکنی کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس شہداء کے پیغام کو سننے والے افراد ہہں اور ہم اس سمت میں قدم اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے بعض ممالک میں اسلامی مقدسات کی توہین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قرآن، پیغمبر اکرم اور مذہبی رہنماؤں کی توہین اور تکفیری گروہوں کا آغاز اور صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے بعض حکومتوں میں کٹھ پتلی افراد کی موجودگی یہ سب امت اسلامیہ کو دیوار سے لگانے کے دشمن کے منصوبے کی کڑیاں ہیں، لیکن ہم دشمن کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ہم اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور مزاحمت جاری رکھیں گے۔