[]
سید علی حیدر رضوی
ملک میں انتخابات کے انعقاد کے اعلان کے ساتھ ہی تمام سیاسی جماعتیں کیل کانٹوں سے لیس ہوکر خم ٹھونک کر سامنے آجاتی ہیں۔ حتی کہ وہ پارٹیاں بھی جو سابق میں ہارنے کے بعد مینڈک کی سرما خوابی میں چلی گئی تھیں حسرت و یاس میں دن گزار کر میدان میں نئی امیدوںکے ساتھ اترآئی ہیں اور جو پارٹیاں جیت کر اقتدار کے مزے لوٹنے میں مگن تھیں اورجنہیں خواب و خور کے علاوہ کوئی کام نہ تھا وہ بھی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی عوام سے رجوع ہونے لگی ہیں جبکہ الیکشن جیتنے کے بعد سے وہ گزشتہ پانچ سالوں کی میعاد میں لاتعلق رہے۔ عوامی مسائل کو حل کرنے یا عوام کی دلگیری سے کوئی راست واسطہ نہ رکھا خندہ دندان نما چہرہ پر بکھیرے عوام کے درمیان لوٹ آتے ہیں اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے رائے دہندوںکا دل جیتنے کی کوشش میں محو ہوجاتے ہیں۔ ان سیاست دانوں اور قائدین کی محویت چند روزہ ہوتی ہے۔ آغاز انتخابات سے لیکر اختتام تک پھر وہ کہاں اورہم کہاں۔ پھر ان کی صورت آپ کو اخبارات اور ٹی وی میں نظر آتی ہے ورنہ ان کاچہرہ دیکھنے کی حسرت ہی دل میں رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام انتخابی عمل سے دور رہنے لگی ہے۔ جس کی وجہ سے رائے دہی کا فیصد گھٹتا جارہا ہے۔
برصغیر کی جمہوریت کا یہی ایک المیہ نہیں اس میںسیکڑوں خرابیاں ہیںجو جمہوریت کو داغدار کرتی ہیں۔ عوامی اعتماد کو ڈانواڈول کرتے ہیں۔ اچھی جمہوری حکومت کی بنیاد اسی وقت پڑسکتی ہے جب انتخابات صاف شفاف اور منصفانہ ہوں۔ ورنہ جمہوری حکومت برائے نام جمہوریت ہے۔
ملک میں عنقریب پانچ ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت کے لئے انتخاب ہونے والے ہیں۔ ماحول گرمایا ہوا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں میں نیا جوش و خروش دکھائی دیتا ہے لیکن یہ جوش عوامی خدمت یا ملکی مسائل کے حل یا ملک کو ترقی دے کر اونچائیوں تک لے جانے کیلئے نظر نہیں آتا بلکہ ہر پارٹی ووٹروں کورجھانے تحریص دے رہی ہے ‘ کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم انہیں پانچ سو روپیوں میں گیس سلنڈر دیں گے‘ آر ٹی سی بسوں میں خواتین کو مفت سفر کی سہولت اور ماہانہ ڈھائی ہزار روپے امداد فراہم کریںگے۔ کسانوں کو رجھانے کیلئے رعیتو بھروسہ اسکیم کے تحت ہر سال کرایہ دار کسانوں کو پندرہ ہزار جبکہ زرعی مزدوروں کیلئے دھان کی فصل کے لئے پانچ سو روپے بونس گروہا جیوتی اسکیم کے تحت دو سو یونٹ بجلی ہر گھر کیلئے مفت دی جائے گی۔ ایسے لوگوںکو جن کے پاس گھر نہیں ہے انہیں اندرماں اسکیم کے تحت گھرکیلئے جگہ اور پانچ لاکھ روپے دیئے جائیں یگ۔ علاوہ ازیں تلنگانہ تحریک کے تمام مجاہدین کو ڈھائی سو مربع گز کا پلاٹ دیاجائے گا۔ طلباء کے لئے دویا بھروسہ کارڈ مالیتی پانچ لاکھ روپے دیاجائے گا۔ ہر منڈل میں تلنگانہ انٹرنیشنل اسکول کھولے جائیں گے۔ اس کے علاوہ راجیو آروگیہ شری انشورنس کے تحت دس لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ چیتنا اسکیم کے تحت ماہانہ چارہزار روپے وظیفہ دیا جائے گا۔
یہ وہ سبز باغ ہیں جنہیں دکھا کر کانگریس غریب جنتا سے جو خوابوں خیالوں میں زندگی یوں ہی گزاردیتی ہے ووٹ مانگ رہی ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ یہ حسین خواب پورے کبھی نہیں کئے جاسکتے۔
کانگریس کے علاوہ دیگر سیاسی علاقائی پارٹیاں بھی عوام کو رجھانے ایسے وعدے کررہی ہیں ‘ یہ علی الاعلان رشوت کی پیشکش ہے ۔ جمہوری قدروں کی خلاف ورزی ہے۔اخلاقی گراوٹ ہے۔ ایسے وعدے کرنے سے بہتر یہ ہوتا کہ وہ عوام کو اپنا ایک منشور پیش کرتے اور یہ بتانے کی کوشش کرتے کہ اگر انہیں حکومت بنانے کا موقع دیا جائے تو وہ عوام کو خوشحال بنانے اور ملک کو ترقی دینے بیروزگاروں کو روزگار فراہم کرنے ‘ انہیں خود مکتفی بنانے کیا منصوبے رکھتی ہیں۔ ملک کو معاشی ترقی دینے کیا منصوبے بنائے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ کسی پارٹی کے پاس ملک اور قوم کو ترقی دینے کے لئے کوئی منصوبہ ہی نہیں ہے۔ فقط بلند بانگ دعوے کرنے اور عوام کو گمراہ کرنے کے سوا انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
ایسے میں پورے ملک میں ایک ہی ایسی پارٹی ہے جس نے ریاست تلنگانہ کو فقیدالمثال ترقی دی ہے اور گزشتہ دس سال میں بہترین کام کرکے دکھایا ہے لہٰذا وہ عوام کو تحریص دینے اور رجھانے کے لئے کوئی ایسے وعدے نہیں کررہی ہے جو ایفا نہ ہوسکیں۔ وہ اپنا کام پیش کرکے ترقی کے مشروط وعدے کے ساتھ ووٹ کی اپیل کررہی ہے۔ کے سی آور ان کی پارٹی بی آر ایس نے ریاست کو ہمہ جہت ترقی دی ہے ۔ وہ سینہ تان کر بات کرنے کے موقف میں ہیں۔ چنانچہ انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا مورخہ18ستمبر نے اپنے ادارتی کالم میں تلنگانہ و آندھرا کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ریاست متحدہ آندھرا پردیش کی تقسیم کے بعد دو ریاستیں تلنگانہ اور آندھرا پردیش وجود میں آئیں۔ لیکن تلنگانہ ‘ آندھرا پردیش سے بہت زیادہ بہتر حالت میں ہے۔ آندھرا پردیش کی سیاست اورمعیشت نہ صرف ناکامیوں سے دوچار ہے بلکہ بے سمت ہوچکی ہے۔ اگر ان دونوں ریاستوں کا تقابل کیا جائے تو تلنگانہ مضبوطی سے کھڑی ہوئی ہے ۔ یہ نوزائدہ ریاست ترقی‘ خوشحالی کی شناخت قائم کی ہے۔ برخلاف اس کے آندھرا پردیش تنازعات میں گھری ہوئی ہے۔ کے سی آر پر خاندانی حکمرانی اور اقربا پروری کے نامعقول الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔
تلنگانہ2022-23ء میں ایسی ریاست رہی جو پورے ملک میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی رکھنے والی ہے۔ یہ فی کس آمدنی308تا 732 روپے فی کس رہی جبکہ آندھرا پردیش218تا219 روپے کے درمیان رہی۔ آندھرا پردیش انسانی ترقی میں بہت پچھڑ چکی ہے۔ نوزائدہ بچوں کی اموات بھی آندھرا میں بہت زیادہ رہیں۔ برخلاف اس کے تلنگانہ میں نوزائدہ بچوں کی اموات بہت کم ہیں۔ جنوب کی پانچ ریاستوں میں فی ہزار اموات کی شرح 30تھی جبکہ تلنگانہ میں 26رہی۔ یہ شرح دوسری ریاستوں کے مقابل نہایت کم رہی۔ آندھرا پردیش کی حکومت کے حکومتی اقدامات کمزور اور بے نتیجہ رہے کیوں کہ آندھرا کے زرعی علاقے قحط سالی کا شکار رہے ‘ طرفہ تماشہ یہاں باڑھ بھی آتی رہی۔ ساحلی علاقے زیادہ زد میں رہے۔ جبکہ کے سی آر نے اپنی دوراندشی اور سوجھ بوجھ کو کام میں لاتے ہوئے ترقی کے تمام شعبوں پر یکساں توجہ دی انہوں نے زراعت کو ترقی دینے چھ ڈیم تعمیر کروائے جس سے زراعت بڑھی ۔ ان میں ایشیاء کا سب سے بڑا سرج ہوس بمقام یدولا پمپ ہاؤز قابل فخر کارنامہ ہے جس کے ذریعہ1226 دیہاتوں کو پینے کا پانی فراہم ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ بارہ لاکھ تیس ہزار ایکڑ اراضی سیرآب ہورہی ہے۔ صنعتوں کے لئے 0.33ٹی ایم سی پانی سربراہ کیا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں پالمور ‘ رنگاریڈی لفٹ اریگیشن پراجکٹ قابل ذکر کارنامے ہیں۔ علاوہ اس کے درکار ضرورت کے پیش نظر کھمم‘ کاماریڈی‘ کریم نگر ‘ نرمل کمرم بھیم (آصف آباد) جئے شنکر بھوپال ‘ جنگاؤں ‘ وقار آباد اور راجنا سرسلہ میں جملہ نو میڈیکل کالج قائم کئے گئے۔ ان میڈیکل کالجوں سے ہر سال دس ہزار ڈاکٹرس نکلیں گے۔ آنے والے دنوں میں ہر ضلع کے لئے ایک سرکاری میڈیکل کالج ہوگا ‘ ترقی کا اندازہ کرنا ہے تو اعداد و شمار بتادیں گے کہ ریاست میں2014ء میں میڈیکل کالجوں میں جملہ نشستیں صرف دو ہزار آٹھ سو پچاس تھیں لیکن آج2023ء میں یہ نشستیں آٹھ ہزار پانچ سو پندرہ ہیں۔ گویا پانچ ہزار چھ سو پینسٹھ نشستوں کا اضافہ ہواہے۔ تیزرفتار ترقی اسے کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی آر ایس اور کے سی آر کو رائے دہندوں کو راغب کرنے کسی تحریص کی ضرورت نہیں ہے۔ ملک میں تقریباً ہر پارٹی عوام کو بے وقوف بنانے ناقابل ایفا وعدے کررہی ہے جبکہ کے سی آر اور بی آر ایس اپنے کام کو دکھا کر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ ان ترقیاتی کاموں کے علاوہ حکومت کے درجنوں فلاحی کام ہیں جیسے آسرا پنشن ‘ لڑکیوں کی شادی کیلئے امداد‘ زچگی کے بعد زچہ اور بچے کو مالی اداد اور تحائف ‘ معذوروںکو پنشن ‘ بیرونی ممالک تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو تعلیمی مدد‘ غریبوں کو دو کمروں کے عمدہ اور فلیٹس کی فراہمی ‘ خواتین کیلئے سرکاری بسوں میں مفت سفر کی سہولت۔ وغیرہ وغیرہ کے سی آر حکومت نے بستی دواخانوں کو بھی کارپوریٹ دواخانوں کی صف میںلاکھڑا کیا ہے جہاں معقول اور اطمینان بخش علاج ہورہا ہے۔ دوائیں بھی مفت دستیاب ہیں۔
ایسی فعال اور کارکرد حکومت کانگریسی جو جب بھی اقتدار پر آئے بدعنوانیوں اور رشوت خوری میں مصروف رہے‘ ہر محاذ پر ناکام حکومت بتارہے ہیں۔ جھوٹ اور بے ایمانی کی حد ہوگئی۔
اسی لئے عوام کہتے ہیں حیدرآباد دکن میں ترقی اور خوشحالی آصف سابع کے بعد این ٹی آر اور چندرابابو نائیڈو اور کے سی آر ہی کے دور میں ہوئی ہے۔ کانگریس دور حکومت بدترین دور رہا۔ کانگریس خود کو سیکولر کہتی ہے جبکہ بابری مسجد کی1948ء میں تالہ بندی سے لے کر راجیو گاندھی کے دور میں تالے کا کھولاجانا‘ پھر شیلانیاس کروانا‘ اڈوانی کو رتھ یاترا کی اجازت دے کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کاموقع فراہم کرنا‘ نرسمہا راؤ کے دورمیں بابری مسجد کا شہید کیا جانا اور ایسے سینکڑوں واقعات ہیں جن کی تفصیل اگر بیان کی جائے تو کئی دفتر کھل جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ہندوستانی شہری کانگریس اور بی جے پی کو ایک ہی سکے کے دو رخ کہتے ہیں اور یہ لوگ بجا کہتے ہیں ۔ کئی ریاستوں کی علاقائی جماعتوں سے کسی متحدہ محاذ کے قیام کی بات کی جاتی ہے تو وہ بی جے پی اور کانگریس حکومت ہندوستان کی بات کرتے ہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰