[]
حمید عادل
مشہور کہاوت ہے کہ نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے ، ہم نے سولی پر نیند کے مزے لوٹتے ہوئے توکسی کو نہیں دیکھا البتہ چینی ملازمین کی ایک تصویر ضرور ہماری نگاہوں سے گزری ہے ، جس میں چین کے صوبے ہنان میں 165فٹ اونچے ٹرانسمیشن ٹاور پر ڈیوٹی سر انجام دیتے الیکٹریکل ورکرز خطرے کی پرواہ کیے بغیر خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں …
جہاں تک ہماری نیند کاسوال ہے، رات کے سناٹے میں دیوار پر لگی گھڑی کی سوئیوں کی مدھم سی ٹک ٹک تک ہمیں سونے نہیں دیتی ہے…کل ہی کی بات ہے ،ہم گھوڑے بیچ کر سونے کی تیاری کرہی رہے تھے کہ دیوار ی گھڑی کی ٹک ٹک نے ہماری نیند اڑا دی …ہم نے وقت ضائع کیے بغیر گھڑی کودیوار سے ہٹایا اوراسے کپڑوں کے ڈھیر تلے دبا دیا …ہم سل اس لیے نہیں نکالتے کیوں کہ گھڑی کی سوئیوں کو روکنا معیوب سمجھتے ہیںاور پھر وقت کی درستگی کے لیے سوئیوں کو گھماتے بیٹھنے کا کس کے پاس وقت ہے …
جب گھڑی کی ٹک ٹک ہماری نیند کو پسند نہیں تو پھر کسی کے خراٹے کیا خاک پسند آئیں گے؟ چنانچہ ہم پچھلے دنوں ایک تقریب میںکسی کے ہاں مہمان بن کر گئے توہم سے اور ہماری نیند سے واقف مہربان، میزبان نے ہمارا بستر ایسے مہمان کے پہلو میں لگایا ،جن کے تعلق سے انہیں گمان تھا کہ وہ خراٹے کے عادی نہیں ہیں … اس کے باوجوداس خیال نے ہمیں کافی دیر تک سونے نہ دیا کہ جانے وہ کب شروع ہوجائیں گے…
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
اکبر الہ آبادی
جب دل مکمل طور پر مطمئن ہوا کہ یہ مہمان خراٹے نہیں ماریں گے تو ہم تقریباً تین بجے نیند کی آغوش میں جا پہنچے اور پھرساڑھے تین بجے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے …وجہ تھی خراٹے… ہمارے قریب سورہے وہ صاحب ، جن کے تعلق سے یہ خوش فہمی تھی کہ وہ خراٹے نہیں لیں گے، زور دار خراٹے لے رہے تھے …ان کی ناک اور منہ ’’ملے سر میرا تمہارا تو سر بنے ہمارا‘‘کی ترجمانی کررہے تھے، ایسی دلچسپ جگل بندی آج سے پہلے ہم نے پہلے کبھی نہ سنی تھی نہ دیکھی تھی … جب خراٹے ، غرانے میں بدل گئے تو ہماری روح فنا ہوگئی ، ہم بستر سے اٹھے اور کمرے سے ہال میں چلے آئے …جہاں میزبان ہنوز جاگ رہے تھے…ہم نے نہایت مودبانہ انداز میں سرگوشی کی ’’ خراٹوں نے ہمارا سونا حرام کردیا ہے ۔‘‘اور پھر ہم نے کچن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ ہم کچن میں سوجائیں گے، وہاں ہمیں کوئی ڈسٹرب نہیں کرے گا ۔‘‘ کچن میں سونے کی بات پر میزبان چونکے اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنے لگے ’’آپ میری جگہ پر سوجائیں ،میں آپ کی جگہ پرسوجاؤں گا۔‘‘ ہم نے ان کے ارد گرد کے حالات کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ سبھی مہمان چپ چاپ پڑے سورہے ہیں … میزبان کو خراٹوں کے حوالے کرناکچھ ٹھیک معلوم نہیں ہورہا تھا لیکن بادل نخواستہ ہم نے انہیں خراٹوں کی نذر کردیا …
فجر کا وقت ہونے میں تقریباً سوا گھنٹہ باقی تھا اور نیند ہماری آنکھوں سے ایسے غائب ہوچکی تھی، جیسے بی جے پی دور میں خوشحالی…ہم نے سونے کے لاکھ جتن کیے مگر ناکام رہے ،ویسے بھی اپنے گھر کے علاوہ کہیں اور نیند ہم پر آسانی سے مہربان نہیں ہوتی ہے…ہم نے خود کو سلانے کے لیے بادیدہ نم فلم ’’ کنورا باپ ‘‘ کی لوری گنگنانی شروع کردی :
’’ آ ،آ ری آ جا نیندیا ،تو لے چل کہیں
اڑن کھٹولے میں، دور،دور ،یہاں سے دور
لیکن نیند تھی کہ آنے کا نام نہیں لے رہی تھی، بلکہ دور کھڑی ہماری بھونڈی لوری پر ہنس رہی تھی … ہم نے سونے کا ارادہ ترک کردیا اور جاگنے کی نیت کر لی … جی ہاں !ہم نے کہیں پڑھا تھا اگر آپ فوری نیند چاہتے ہیں تو جاگنے کے بارے میں سوچیں… یہ پڑھنے میں آپ کوعجیب ضرور محسوس ہورہا ہو گا مگر ماہرین کے مطابق نیند کے بارے میں فکرمند ہونے کی بجائے ہمیںجاگنے کے بارے میں سوچنا چاہیے، جس سے ہمارے ذہن کو سکون ملے گا اور سونے میں مدد ملے گی..ہم نے اس ترکیب کو فوری آزما ڈالا لیکن پھر بھی نیند کو نہ آنا تھا نہ آئی …دریں اثنا ہمارے ذہن میں ایک اور ترکیب کلبلائی، جس کے مطابق اگرکسی کو نیند نہ آرہی ہو تو پھر اسے چاہیے کہ وہ جرابیں پہن لے . .. سنا ہے کہ اگر سونے سے پہلے پیر ٹھنڈے ہوں تو دماغ کو ایسا سگنل ملتا ہے کہ ابھی سونے کا وقت نہیں ہوا، لہٰذا جاگتے رہو…جب کہ پیروں کو جرابوں کے ذریعے گرم کیا جائے تو اس سے خون کی شریانوں کو سکون ملتا ہے اور دماغ کولگتا ہے کہ یہ سونے کا وقت ہے ۔ہم نے اپنے پیر چھوئے تو انہیںگرم پایا ،اس کے باوجود ہم نے جرابیں پہن لیں… دفعتاآواز آئی ’’ بے وقوف انسان! دماغ کا دہی بنانے پر کیوں تلا ہوا ہے ، اتار جرابیں!‘‘اس غیبی آواز کو سن کرہم نے فوری جرابیں اتار پھینکیں…یہ کسی اورکی نہیں ہمارے دماغ کی آواز تھی، جو ہماری احمقانہ حرکت پر چراغ پا ہوچلا تھا …ترکیب نمبر دو کی بری طرح سے ناکامی کے بعد ہمیں محققین کا ایک اور مشورہ یاد آگیا کہ اگر آپ کو رات کو سونے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے تو بستر چھوڑ دیں اور لکھنا پڑھنا شروع کر دیں … تھکے ہوئے ذہن کے ساتھ ہم کچھ لکھنے پڑھنے کے موقف میں تو تھے نہیں، لہٰذاہم نے بستر چھوڑا اورکمرے سے باہر نکل کر صحن میں ٹہلنا شروع کردیا…مسلسل ٹہلنے کی بدولت ہمیں تو نہیں البتہ ٹانگوں کو نیند آنے لگی …جی ہاں ! ٹانگیں جواب دے گئیں…اب کی بار ہارورڈ کے ڈاکٹر اینڈریو ویل کی ترکیب ذہن میں کوندی …یہ ایک قدرتی ٹوٹکا ہے جو صدیوں سے مختلف افراد استعمال کررہے ہیں۔ اس طریقے کو 4-7-8 کا نام دیا گیا ہے ۔ اس کے مطابق سب سے پہلے بستر پر سکون سے لیٹ جائیں اور پھر اپنی ناک سے 4 سیکنڈ کے لیے سانس لیں، اس کے بعد 7 سیکنڈ کے لیے سانس روک لیں اور پھر منہ سے 8 سیکنڈ میں آہستگی سے سانس خارج کریں۔ یہ عمل اس وقت تک دہرائیں جب تک نیند نہیں آجاتی ہے… اکثر اوقات لوگ اس نسخے کو آزما کر ایک منٹ کے اندر ہی خواب خرگوش کے مزے لینے لگتے ہیں…ہم اس مجرب نسخے پر عمل کرنے کی غرض سے جیسے ہی صحن سے ہال میں داخل ہوئے ، یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ہماری بیڈ شیٹ کوکسی نے اوڑھ لیا تھا تو بلانکٹ کوکسی اور نے ، فرش پرپڑا تکیہ ہمارا منہ چڑھا رہا تھا…ہم کسی سے کچھ چھیننے کے عادی کہاں ہیں ، چاہے اس پر ہمارا حق ہی کیو ں نہ ہو، لہٰذاہم نے فرش ہی پر سونے کا فیصلہ کیا… مذکورہ بالا 4-7-8 ترکیب کو مسلسل آزماکرہم نیند کی آغوش میں پہنچنے ہی والے تھے کہ ہماری دائیں جانب سورہے مہمان نے خراٹے لینا شروع کردیا اور خراٹے بھی بڑے فراٹے دار…ہم نے خود کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ یہ اچانک شروع ہوئے ہیں تو اچانک بند بھی ہوجائیں گے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ خراٹوں کے شور میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جارہا تھا…جب کہ کمرے سے اٹھنے والے خراٹے حیرت انگیز طورپر بند ہوگئے تھے…ہم کف افسوس ملنے لگے کہ ذرا سا صبر کرلیتے تو ہال میں ہمارایہ حال نہ ہوتا…جہاں ایک ہم ہی تھے جو اُلو کی طرح جاگ رہے تھے، کسی پر خراٹوںکا کوئی اثرنہیں تھا بلکہ چند ایک نے تو باقاعدہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا شروع کردیا تھا… ہم نے فوری خالق کائنات سے(علامہ اقبالؒ سے معذرت کے ساتھ) شکایت کرڈالی :
خداوندا یہ تیرے نیند کے مارے بندے کدھر جائیں
ہال میںسورہی بے خبرقوم کو دیکھ کرہمیں حسد کی حد تک رشک ہورہا تھا …قوم پر یاد آیا، سیاست دانوں کے تعلق سے مشہور ہے کہ وہ خراٹے بھی آہستہ مارتے ہیں کہ کہیں قوم جاگ ہی نہ جائے …جہاں تک سونے والوں کی بات ہے ہم نے بس اور ریل میں ایسے کئی مسافرین کو دیکھا ہے جو بے پناہ ٹریفک کے شور اور نشست نہ ملنے کے باوجود کھڑے کھڑے آہنی کھمبے کو پکڑ کر نیند کی باہوں میں جھولتے رہتے ہیں… چمن بیگ کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے…ہم گھر پراحتیاط علی محتاط سے محوگفتگو تھے کہ چمن چلے آئے، آتے ہی ایک آدھ بات کرکے، فرشی نشست سنبھالی اور نیندکے مزے لوٹنے لگے…ہمیں شرارت سوجھی تو انہیں بری طرح سے جھنجھوڑ کر زور دار آواز میں کہا ’’ چمن ! اٹھو چیوڑلہ آگیا ہے۔‘‘وہ ہڑبڑا کر اُٹھے اور کہا: ’’اچھا ! چیوڑلہ آگیا…جب وقارآباد آجائے تو اُٹھا دینا‘‘ اور یہ کہہ کروہ دوبارہ سو گئے۔ ایک طرف اُن کے خراٹے گونج رہے تھے تودوسری جانب ہمارے قہقہے…وہ نیند میں اس حد تک بد مست ہوچلے تھے کہ انہیں یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ وہ کسی بس یا ٹرین میں نہیں ہمارے گھر پر ہیں…
دوستو! تمام رات ہی آنکھوں میں کٹ گئی … ہم نے سونے کا ارادہ اس وقت بالکلیہ طورپر ترک کردیا جب ایک مہمان نے گرم ہوا سے ماحول مکدر کردیا۔
اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی
ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی
راہی معصوم رضا
فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد ہماری اس مہمان سے ملاقات ہوئی، جن کے طوفانی خراٹوں سے گھبرا کر ہم نے کمرہ چھوڑا تھا…اس سے پہلے کہ ہم ان سے ان کے خراٹوں کی شکایت کرتے وہ ہم ہی پر ٹوٹ پڑے، کہنے لگے ’’محترم ! جب آپ کمرے سے باہر گئے تو میں چین کی نیند سو سکا!‘‘
’’ کیا مطلب؟‘‘ ہم بری طرح سے تڑخے۔
’’ آپ کے خراٹوں نے ناک میں دم کردیا تھا جناب۔‘‘
’’خراٹے آپ لے رہے تھے یا ہم؟‘‘ ہم نے سوال دے مارا۔
’’ آپ لے رہے تھے جناب۔‘‘اُس مہمان نے ڈھٹائی سے جواب دیا…ہم نے الجھنا مناسب نہیں سمجھااورچپ ہوگئے …ہم اکثر ایسے ہی چپ ہوجایا کرتے ہیں۔لیکن خراٹے والی بات ہمیں ہضم نہ ہوئی ، تقریب سے گھر لوٹے توپھول بانو سے اپنے خراٹوں سے متعلق پوچھا تو انہوں نے نہایت سلیقے سے جواب دیا :
’’ آپ خراٹے مارتے یا بھرتے نہیں بلکہ لیتے ہیں، وہ بھی کبھی کبھار ، گویا کہ عادی مجرم نہیں ہیں،جس طرح آپ سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح آپ کے خراٹوں کو سن کر محسوس ہوتا ہے جیسے آپ سوچ سمجھ کر خراٹے لے رہے ہیں ۔‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰