[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہفتہ دفاع مقدس کے موقع پر شہداء کے خاندان والوں اور اس حوالے سے مختلف شعبوں میں فعال اور سرگرم افراد سے ملاقات کی۔
حسینیہ امام خمینی میں ہونے والے اس اجتماع سے رہبر معظم کے خطاب کا متن ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
دفاع مقدس کی عظمت کو پہچاننا ضروری ہے۔ اس حوالے سے بہت کام ہوا ہے لیکن اب بھی مزید کام کی ضرورت ہے۔ ہم نے ابھی تک دفاع مقدس کے اثرات کو نہیں پہچانا ہے۔
دفاع مقدس کو کئی زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے
پہلا زاویہ یہ ہے کہ کس مقدس چیز کا دفاع کرنا چاہئے؟
دوسرا یہ کہ کس کے مقابلے میں دفاع کرنا چاہئے یعنی حملہ آور کون ہے؟
تیسرا یہ کہ کن وسائل کے ساتھ دفاع کرنا چاہئے؟
چوتھا یہ کہ اس دفاع مقدس کے کیا اثرات سامنے آئے؟
میرا عقیدہ ہے کہ اگر ہم اپنی نئی نسل کو دفاع مقدس مختلف زاویوں کو اچھی طرح بیان کرسکیں کہ کس طرح ایرانی قوم نے اس اہم واقعے میں کامیابی حاصل کی تو بہت بڑا درس ملے گا۔
دفاع مقدس میں انقلاب اسلامی، انقلاب کے آثار اور برکات اور ملکی سرحدوں کا دفاع کیا گیا۔
دشمن نے ان تینوں پر حملہ کیا تھا۔ ایران کی جغرافیائی سرحدوں پر صدام نے حملہ کیا تھا۔ دشمن چاہتے تھے کہ انقلاب اسلامی اور اس کے پربرکت آثار کو ختم کریں۔
انقلاب نے ان کے فاسد نظام کی جگہ نیا نظام متعارف کرایا تھا، دینی جمہوریت دنیا کے لئے نیا آئیڈیا تھا۔ ان کو انقلاب اسلامی سے دشمنی ہے۔ اگرچہ جغرافیائی حدود کو بھی اہمیت حاصل ہے۔
فرانس نے پیشرفتہ اسلحہ عراق کو فراہم کیا تھا۔ مغربی بلاک اور سوویت یونین نے زمینی اور فضائی سہولیات دی تھیں۔
ہماری مدد کے لئے کوئی تیار نہیں تھا یہاں تک کہ قیمت لے کر بھی کوئی اسلحہ دینے پر ت
یار نہیں تھا۔