[]
مہر خبررساں ایجنسی نے رائٹرز کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سیئول حکومت تہران کے منجمد 6 بلین ڈالر ریلیز کرنے کے لیے امریکہ اور ایران سمیت دیگر ممالک کے ساتھ قریبی مشاورت کر رہی ہے۔
قبل ازیں خبر رساں ذرائع نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ جیسے ہی یہ رقم قطر کو منتقل کی جائے گی، ایران میں قید پانچ امریکی شہری تہران سے دوحہ کے لیے روانہ ہو جائیں گے اور وہاں سے وہ واشنگٹن جائیں گے۔ دوسری جانب امریکا میں قید پانچ ایرانی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے اور وہ ایران واپس جائیں گے۔
تاہم اس رقم کی منتقلی کے صحیح وقت کا ابھی تک عوامی سطح پر اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
واشنگٹن اور تہران کے درمیان 10 اگست کو طے پانے والے اس معاہدے سے فریقین کے پریشان کن حد تک متنازعہ مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔
تاہم فریقین اب بھی تہران کے جوہری پروگرام پر واشنگٹن کی پابندیوں اور خلیج فارس میں امریکی فوج کی موجودگی جیسے دیگر مسائل پر ایک دوسرے سے شدید اختلافات رکھتے ہیں۔
جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے: ہماری حکومت فنڈز منجمد کرنے کے معاملے کو حل کرنے کے لیے امریکہ اور ایران سمیت ملوث ممالک کے ساتھ قریبی مشاورت کر رہی ہے اور فی الحال ہموار پیش رفت کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ تمام طریقہ کار کا مسئلہ ایک بار اور ہمیشہ کے لیے حل کرنا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جن دوہری امریکی شہریوں کو رہا کیا جانا ہے ان میں 51 سالہ سیامک نمازی اور 59 سالہ عماد شرقی شامل ہیں، جو دونوں تاجر ہیں، اور 67 سالہ مراد تہباز، جو ایک ماحولیاتی کارکن ہیں۔ برطانوی شہریت بھی رکھتی ہے۔ انہیں گزشتہ ماہ رہا کیا گیا تھا اور وہ گھر میں نظر بند ہیں۔ دیگر دو قیدیوں کی شناخت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
امریکہ جن پانچ ایرانی شہریوں کو رہا کرنے والا ہے ان میں مہرداد معین انصاری، کمبیز عطر کاشانی، رضا سرہنگ پور، امین حسن زادہ اور کاویہ افراسیابی شامل ہیں۔
اس معاہدے کے پہلے مرحلے میں واشنگٹن نے تہران کے خلاف پابندیاں اٹھا لی تھیں تاکہ جنوبی کوریا میں بلاک کیے گئے 6 بلین ڈالر کے ایرانی اثاثوں کو قطر منتقل کرنے کے لیے شرائط فراہم کی جائیں۔ یہ رقم جنوبی کوریا میں تہران کے خلاف امریکی پابندیوں کی وجہ سے روک دی گئی تھی۔
دوحہ نے ایرانی اور امریکی مذاکرات کاروں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے کم از کم آٹھ دور کی میزبانی کی۔ رائٹرز کے قریبی ذرائع کے مطابق ایرانی اور امریکی مذاکرات کار الگ الگ ہوٹلوں میں قیام پذیر تھے اور قطری ثالثوں کے ذریعے ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے تھے۔