[]
حیدرآباد: وزیراعلی تلنگانہ کے چندرشیکھرراو نے کہا ہے کہ انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے اسکیموں کو ڈیزائن اور نافذ کرنا، سب کو فلاح و بہبود کے ثمرات فراہم کرنا حکومت کا کام ہے۔
ریاست میں آج کوئی ایسا خاندان نہیں ہے جس نے سرکاری اسکیموں کا فائدہ نہ اٹھایا ہو۔ سرکاری اسکیموں کے نتیجہ میں آج ریاست میں غربت کم ہوئی ہے اور فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ تلنگانہ میں غربت کی شرح جو 2015۔18 میں 13.18 فیصد تھی 2019۔21 میں گھٹ کر 5.88 فیصد رہ گئی ہے۔
دوسری طرف فی کس آمدنی کے لحاظ سے تلنگانہ ملک میں پہلے نمبر پر ہے۔ مسلسل محنت اور ریاست کے تمام شعبوں کو مضبوط بنا کر ہم ملک کو یہ بتانے میں کامیاب ہو گئے کہ ترقی کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ کہاوت تلنگانہ جس پر عمل کرتا ہے ملک اس کی پیروی کرتا ہے سچ ہوگئی ہے۔
دیگر ریاستیں ہماری ریاست کی اسکیموں پر عمل پیرا ہیں اور ان ریاستوں کے عوام اپنی ریاستوں میں بھی بہتر حکمرانی چاہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ وزیراعلی کے چندرشیکھرراو نے کہا ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد اس وقت کی ہندوستانی حکومت نے برطانیہ کی زیرتسلط دیسی ریاستوں کو ہندوستانی یونین میں ضم کرنے کا عمل شروع کیا۔
اسی کے ایک حصہ کے طور پر، ہمارا حیدرآباد بھی 17 ستمبر 1948 کوہندیونین کا اٹوٹ حصہ بن گیا۔ ریاست حیدرآباد کے ہندیونین میں ضم ہونے کے ساتھ ہی تلنگانہ میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور پارلیمانی جمہوری انتظامیہ کا آغاز ہوا۔ انہوں نے کہاکہ تلنگانہ کا معاشرہ انصاف، راست بازی اور آئینی حقوق کے حصول کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
اس دن کی عوامی جدوجہد کے لمحات، قربانیاں قوم کے ذہنوں میں ہمیشہ رہیں گی۔انہوں نے کہاکہ مہاتما گاندھی کی ہم آہنگی،اقدار، ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا ویژن، پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل اور دیگر کئی رہنماؤں کی انتھک کوششوں نے ملک کو متحد کیا۔
تلنگانہ کے ہندوستان کا اٹوٹ حصہ بننے کے بعد حیدرآباد 1948 سے 1956 تک ایک ریاست کے طور پرتھی۔ 1956 میں ریاستوں کی تقسیم کے ایک حصے کے طور پر، آندھرا پردیش تلنگانہ اور آندھرا کے علاقوں کو ملا کر تلنگانہ خطہ کے عوام کی مرضی کے خلاف آندھراپردیش ریاست کی تشکیل عمل میں آئی اور اس کے برے نتائج ہم سب جانتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم نے متحدہ ریاست میں تلنگانہ کے خطہ اور عوام کے ساتھ ہونے والی انتہائی ناانصافیوں، غیر قانونی اور متحدہ حکمرانوں کے تسلط کے خلاف علیحدہ ریاست تلنگانہ کے حصول کی تحریک کا پرچم بلند کیا۔
وزیراعلی نے کہا ہے کہ پالمور۔رنگاریڈی پراجکٹ جدوجہد کی تاریخ ہے جس سے 6اضلاع سرسبز ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ محبوب نگر میں اُس وقت کے حکمرانوں کی جانب سے شروع کردہ ا ورزیر التوا پراجکٹس جنگی بنیادوں پر مکمل کیے گئے ہیں۔
قومی یوم یکجہتی کی تقاریب کے حصہ کے طور پر وزیراعلی کے چندرشیکھرراونے حیدرآباد کے باغ عامہ میں قومی پرچم لہرایا۔اس موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1956میں متحدہ ریاست آندھرا پردیش میں محبوب نگر ضلع کو آندھراپردیش کی تشکیل سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑاتھا۔
اگر حیدرآباد ریاست فضل علی کمیشن کی سفارشات کے مطابق پیش قدمی کرتی تو کرشنا، تنگبھدرااوربھیمادریاوں سے سات لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہوتی۔ آندھرا پردیش کی تشکیل کی وجہ سے ہم نے یہ موقع کھو دیا تھا۔
محبوب نگر ضلع میں اس وقت قابل کاشت اراضی 35 لاکھ ایکڑ تھی، جب کہ متحدہ ریاست میں آبپاشی کی سہولتوں والی اراضی صرف 4.5 لاکھ ایکڑ تھی جس کے نتیجہ میں محبوب نگر ضلع کے عوام کو مزدوری کیلئے نقل مکانی کرنے مجبور ہونا پڑا۔تلنگانہ تحریک کے سلسلہ میں تلنگانہ کے ریٹائرڈ انجینئروں نے 2005 میں پالامورو۔
رنگا ریڈی لفٹ اسکیم کو ڈیزائن کیا اور اس وقت کی متحدہ ریاستی حکومت کو رپورٹ دی لیکن اس وقت کے حکمرانوں نے اسے کچرے میں ڈال دیا اور محبوب نگر کے ضلعی لیڈروں میں سے کسی نے اس کی پرواہ نہیں کی۔
اُس وقت کے حکمرانوں کی لاپرواہی اور امتیازی سلوک کی وجہ سے متحدہ محبوب نگر اور رنگاریڈی اضلاع کو کئی دہائیوں تک پینے کے پانی اور آبپاشی کے پانی تک رسائی کے بغیر کئی مشکلات، نقصانات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ کرشنا طاس میں مختلف پراجکٹس کو شروع میں ہی روک د ینا اس وقت کے متحدہ ریاست کے حکمرانوں کا رویہ تھا۔
علیحدہ ریاست کی تشکیل کے بعد، تلنگانہ حکومت نے بنیادی طور پر پالمور۔رنگاریڈی کے بالائی علاقوں پر توجہ مرکوز کی۔کوئل ساگر، کلواکرتی، بھیما، نٹم پاڈوجیسے پراجکٹس جو متحدہ آندھراپردیش کے حکمرانوں نے محبوب نگر میں شروع کیے تھے اور التواء میں پڑے تھے، جنگی بنیادوں پر مکمل کیے گئے۔
اس کے ساتھ ہی متحدہ محبوب نگر ضلع میں آبپاشی کی سہولتوں کا آغاز ہوگیا۔ اگرچہ عزم اور خلوص اس پالمور۔رنگاریڈی پراجکٹ کے سلسلہ میں ہے اور حکومت اس کو مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہیں، لیکن مخالف قوتوں نے ہر قدم پر رکاوٹیں کھڑی کیں۔
بعض اپوزیشن لیڈروں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے سینکڑوں مقدمات درج کرائے تاہم ہم نے ثابت قدمی اور عزم کے ساتھ کام جاری رکھا۔ کافی قانونی جنگ کے بعد ہم ماحولیاتی منظوری حاصل کرنے اور پروجیکٹ شروع کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اس پراجکٹ کے حصہ کے طور پر، ہم نے کل کرشنا کے پانی کو نرلا پور سے باہوبلی پمپ کے ذریعہ پمپ کرنا شروع کیا ہے۔ یہ تلنگانہ کی آبپاشی کی تاریخ کا ایک اور سنہری باب ہے۔ گزشتہ روز حقیقی تہوار کا دن تھا جب 6اضلاع کے عوام کی امیدیں پوری ہوئیں۔
اس پراجکٹ سے جنوبی تلنگانہ کے عوام کی پینے اور آبپاشی کی ضروریات پوری کی جائیں گی۔ ہم اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس کا ہم کئی دہائیوں سے انتظار کر رہے تھے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت نے پالمور۔رنگاریڈی پراجکٹ میں نہر کے کاموں کے لئے احکام جاری کئے ہیں، جو ماحولیاتی منظوریوں سمیت کئی رکاوٹوں کو دور کرنے کے بعد شروع کی گئی ہے۔
حکومت باقی کام مکمل کرے گی۔ اس سے ناگرکرنول، محبوب نگر، نارائن پیٹ، رنگاریڈی، وقارآباد، نلگنڈہ ضلع 6 اضلاع میں 12 لاکھ 30 ہزار ایکڑ اراضی سیراب ہوگی اور 1226 مواضعات کو پینے کا پانی ملے گا۔
مشن کاکتیہ اسکیم کے ذریعہ حکومت نے تالابوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو نمایاں طور پر بہتر کیا ہے۔ ریاست میں ندیوں پر بڑی تعداد میں چیک ڈیموں کی تعمیر کی وجہ سے زیر زمین پانی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
دریائے گوداوری پر تعمیر کردہ کالیشورم پراجکٹ کے بقیہ کاموں کو جلد مکمل کیاجائے گا اور 45 لاکھ ایکڑ اراضی کو آبپاشی فراہم کرے گا۔ کھمم ضلع میں 36 ٹی ایم سی کی گنجائش کے ساتھ تعمیر کیے جانے والے سیتاراماساگربیرج کا کام تیزی سے جاری ہے۔
سیتاراما پراجکٹ کے ذریعہ متحدہ کھمم ضلع میں 6 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جائے گا۔ تلنگانہ کے زرعی شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں ہوں گی،ریاست کے کسانوں کی زندگی میں بہتری پیدا ہوگی۔
باغ عامہ میں وزیراعلیٰ کو پولیس نے سلامی دی۔ بل ازیں وزیراعلیٰ نے گن پارک میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر رکن پارلیمنٹ سنتوش کمار، چیف سکریٹری شانتی کماری، ڈی جی پی انجنی کمار اور دیگر موجود تھے۔ بعد ازاں وزیراعلیٰ نے وہاں منعقدہ جلسہ سے خطاب کیا۔