[]
سوال:- ہندوستان میں دیسی طریقۂ علاج کا ایک ایسا ادارہ قائم ہوا ہے ، جس میں مختلف دواؤں میں گائے کا پیشاب استعمال کیا جاتا ہے ،
یہاں تک کہ بعض دوائیں تو خالص پیشاب ہی کی ہیں ؛ البتہ ان کی بدبو نکال دی گئی ہے ، ایسی دواؤں کے استعمال کا کیا حکم ہے ؟ (ابو طالب، سکندرآباد)
جواب :- تمام ہی جانوروں کا پیشاب ناپاک ہے ، یہی عام طورپر فقہاء کی رائے ہے اور اسی کے قائل امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف ہیں :
’’ ثم ما ذکرنا أنہ نجس من الأدمی فھو نجس من سائر الحیوانات من الأبوال والأوراث ونحوھا عند عامۃ العلماء‘‘ ( تحفۃ الفقہاء : ۱؍۵۰)
البتہ امام ابویوسفؒ کے نزدیک علاج کے طورپر استعمال کرنے کی گنجائش ہے ؛ بشرطیکہ کسی معتبر مسلمان معالج نے اس کا مشورہ دیا ہو اور اس کا کوئی جائز متبادل موجود نہ ہو :
’’ یجوز للعلیل شرب البول والدم والمیتۃ للتداوی إذا أخبرہ طبیب مسلم أنہ فیہ شفاء ولم یجد من المباح مایقوم مقامہ‘‘ ( ردالمحتار : ۵؍۲۲۸) —
اس لئے گائے کا پیشاب پینا یا پیشاب ملی ہوئی دوا کا استعمال کرنا جائز نہیں ، بالخصوص ایسی صورت میں کہ اگر اس سے فائدہ ہوتا بھی ہو تو یہ کوئی ایسی دوا نہیں ہے کہ اس کا کوئی حلال متبادل موجود نہ ہو ،
نیز اس میں ممانعت کا ایک اور پہلو بھی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اس کا مقصد صرف علاج نہیں ہے ؛ بلکہ لوگوں کے دلوں میں گائے تقدس بیٹھانا بھی اس کا ایک اہم مقصد ہے ؛ تاکہ لوگوں کو گاؤ پرستی کی طرف لے جایا جائے ؛ اس لئے بہ مقابلہ دوسری ناپاک دواؤں کے اس سے زیادہ اجتناب برتنا چاہئے ۔