
حیدرآباد ۔ کے این واصف
اخبار کے صفحہ اول پر شائع خبر کی سرخی پر نظر پڑتے ہی منہ سے “اوہ” کی صدا بلند ہوئی۔ پاس میں کھڑی بیگم نے پوچھا کیا آپ کا کوئی قریبی گزر گیا۔ ہم نے کہا نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ اخبار کی سرخی “آر بی آئی جلد ہی 100 اور 200 روپئے کے نئے نوٹ جاری کرے گا” پر نظر پڑتے ہی منہ سے چینخ نکل گئی۔ ہم نے سوچا شاید کہیں پھر سو، دوسو پرانے نوٹ بند تو نہیں کردئیے جائیں گے۔
کیونکہ سرخی میں اس کی سراحت نہیں تھی۔ اس لئے لمحہ بھر کے لئے ہم پر وحشت طاری ہوگئی۔ اس پر بیگم نے کہا آپ کیوں ہیبت کھا بیٹھے۔ آپ کی الماری کونسی سو اور دوسو کے نوٹوں سے بھری ہے۔ آپ کوئی “گودی میڈیا “ سے جڑے ہیں، آپ تو صحافت کی پرانی ڈگر ہی پہ اڑے بیٹھے ہیں۔ ہم نے بیگم کو ٹوکتے ہوئے کہا بیگم صحافی ہمیشہ عوام کی سوچتا ہے۔
آپ کو یاد نہیں جب 500 اور 1000 روپئے کی نوٹ بندی ہوئی تھی تو عوام کا کیا حشر ہواتھا۔ اس پر بیگم نے کہا جب پانچ سو اور ہزار روپئے کی نوٹ بندی ہوئے تھی تو مصیبت مین آئی عوام، آپ کی دیانتدار صحافت یا ہماری اپوزیشن نے کیا کرلیا تھا۔
ہم ہیں اسیر ضبط اجازت نہیں ہمیں
رو پارہے ہیں آپ بدھائی ہے روئیے
——X——