ایل آر ایس مفت کرنے کے وعدہ سے انحراف،حیڈرا کی انہدامی کارروائیاں وبال جان – کونسل میں کویتا کی تقریر

*آندھرا کے موسیقار سے تلنگانہ گیت کی تیاری ناقابل فہم*

 

*کانگریس حکومت پر ریاست کی تہذیب و ثقافت کو کمزور کرنے کا الزام*

 

*عظیم شاعر و مجاہد آزادی دسرتھی کی صدسالہ تقاریب سرکاری سطح پر منائی جائیں*

 

*2کروڑ 64 لاکھ میٹرک ٹن دھان کی پیداوار دراصل بی آر ایس حکومت کی کسان دوست پالیسیز کا ثمرہ*

 

*زرعی شعبہ بالکلیہ طور پر نظر انداز،کسان مقروض، بونس کے وعدہ کی عدم تکمیل*

 

*ریاست میں سرمایہ کاری کی تفصیلات پر قرطاس ابیض جاری کیا جائے*

 

ایل آر ایس مفت کرنے کے وعدہ سے انحراف،حیڈرا کی انہدامی کارروائیاں وبال جان

 

*چیف منسٹر ریونت ریڈی عوامی جذبات سے عاری۔ کابینہ میں اقلیتی نمائندگی نہ ہونا افسوسناک*

 

*ریاست کی ترقی کے لئے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ۔ کونسل میں کے کویتا کی تقریر*

 

حیدرآباد: تلنگانہ قانون ساز کونسل میں بی آر ایس رکن کلواکنٹلہ کویتا نے کئی اہم عوامی مسائل کو اجاگر کیا اور موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر سوالات اٹھائے۔کویتا نے “جئے جئے تلنگانہ” گیت کی تیاری میں حکومت کے رویہ پر ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ تلنگانہ کے موسیقاروں کی موجودگی کے باوجود آندھرا کے موسیقار سے یہ گیت بنوانا ناقابل فہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشیل میڈیا پر بھی اس فیصلہ کے خلاف سخت ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔کویتا نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تحریک کے دوران جس “تلنگانہ تلی” کی بھرپور عزت کی گئی، آج اسے کوئی سرکاری منظوری حاصل نہیں ہے ۔تلنگانہ کے ثقافتی تہوار جیسے بتکماں اور بونال ہی ہماری شناخت ہیں لیکن حکومت کی پالیسیوں سے ان روایات کو کمزور کیا جا رہا ہے۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ عظیم شاعر اور مجاہد آزادی دسرتھی کی صد سالہ تقاریب سرکاری سطح پر منائی جائیں۔ ان کی شاعری تلنگانہ کی ثقافت اور جدوجہد کی غماز ہے۔کویتا نے کہا کہ حکومت 2 کروڑ 64 لاکھ میٹرک ٹن دھان کی پیداوار کا کریڈٹ لے رہی ہے جبکہ یہ کامیابی دراصل بی آر ایس حکومت کے دور میں شروع کردہ کالیشورم پروجیکٹ اور کسان دوست پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔انہوں نے موجودہ حکومت پر زرعی شعبہ کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا اور یاد دلایا کہ انتخابات سے قبل ہر کسان کے 2 لاکھ روپے تک قرضہ جات معاف کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن تاحال کسان قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔کویتا نے سوال کیا کہ 500 روپئے بونس دینے کا دعویٰ کہاں گیا؟ ہر کسان حکومت سے اس وعدہ کی تکمیل کا مطالبہ کر رہا ہے۔کویتا نےسوال کیا کہ حکومت اب تک ناگرجنا ساگر پروجیکٹ کو ریاست کے کنٹرول میں کیوں نہیں لے سکی؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ریاست میں سرمایہ کاری پر ایک وائٹ پیپر جاری کرے تاکہ عوام کو حقائق سے واقفیت ہوسکے۔کویتا نے کہا کہ حکومت نے پہلے عوام سے کہا کہ انہیں لینڈ ریگولرائزیشن اسکیم (LRS) کی رقم ادا کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اب انہیں ادائیگی کے لئے مجبور کیاجا رہا ہے۔دوسری طرف حیڈراکے ذریعہ انہدامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں جو عوام کے لئے مشکلات کا سبب اور وبال جان بن گئی ہیں۔انہوں نے بجٹ سیشن کے لئے مزید وقت مختص کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ تلنگانہ کے عوامی مسائل پر تفصیلی بحث ہونی چاہئے۔ کویتا نے کہا کہ وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی تلنگانہ تحریک میں شامل نہیں تھے۔ اسی لئے وہ عوامی جذبات سے ہم آہنگ نہیں ہو پا رہے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ آندھراپردیش میں کابینہ میں اقلیتی نمائندگی ہوتی تھی۔ لیکن موجودہ حکومت میں اقلیتوں کو کابینہ میں کوئی جگہ نہیں دی گئی ہے جو انتہائی افسوسناک امر ہے۔کویتا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ عوام کے جذبات کوسمجھتے ہوئے ریاست کی ترقی کے لئے ٹھوس اقدامات روبہ عمل لائے۔قبل ازیں تلنگانہ قانون ساز کونسل میں بی آر ایس کے ارکان ہاتھوں میں پلے کارڈس تھانے ہوئے داخل ہوئے۔ جس میں ہلدی کی فی کنٹل اقل ترین امدادی قیمت 15 ہزار روپئے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *