مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک: اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے۔ اللہ تعالی انسانوں کو اعلی اور بافضیلت مقام تک پہنچانا چاہتا ہے جس کے لئے ہر وہ چیز عطا کی ہے جو فضیلت کے اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔ قرآن کریم میں اس حوالے سے رہنما اصول بیان کیے گئے ہیں۔
قرآن کریم دین کی تفہیم کا سب سے پہلا اور بنیادی ذریعہ ہے، اس لیے اس کی تفسیر میں صرف الفاظ کے معانی پر اکتفا نہیں کیا جاتا لہذا ان کو سیکھنے اور سمجھنے کے لئے تفسیر اور توضیح کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کی تفسیر اور اس کو سمجھنے کی کوشش نبی اکرم (ص) کے زمانے سے آج تک جاری ہے۔ قرآن کی ابدیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہر دور میں اس کی تشریح اور وضاحت جاری رہے۔
قرآن مجید کو انسانوں کے لئے ہدایت قرار دیا گیا ہے: (ہُدیً لِلنَّاسِ) “یہ انسانوں کے لیے ہدایت ہے”
“زندگی قرآنی آیات کی روشنی میں” کے سلسلہ تحریر کا مقصد قارئین کو آیات قرآنی کے معانی، مفاہیم اور پیغامات سے آگاہ کرنا ہے۔
وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ إِلَّا بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ حَتَّیٰ یَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبَیٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِهِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (انعام، 152)
اور خبردار مال هیتیم کے قریب بھی نہ جانا مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو یہاں تک کہ وہ توانائی کی عمر تک پہنچ جائیں اور ناپ تول میں انصاف سے پورا پورا دینا -ہم کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ہیں اور جب بات کرو تو انصاف کے ساتھ چاہے اپنی اقرباہی کے خلاف کیوں نہ ہو اور عہد خدا کو پورا کرو کہ اس کی پروردگار نے تمہیں وصیت کی ہے کہ شاید تم عبرت حاصل کرسکو
اہم نکات
اللہ ہر کام کو بہترین طریقے سے انجام دیتا ہے چنانچہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کو “أَحْسَنُ الْخالِقِینَ” سب سے بہترین پیدا کرنے والا کہا گیا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ ہم سے بھی بہترین عمل کا تقاضا کرتا ہے: “لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا” تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں سے کون بہترین عمل کرتا ہے۔ خواہ اقتصادی معاملات ہوں یا مخالفین سے بحث میں اچھے انداز کو اپنانا ہو “جادِلْهُمْ بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ”۔ دوسروں کی باتوں میں سے بہترین بات کو قبول کرنا ہو “یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ” خواہ برائی کا بہترین انداز میں جواب دینا ہو “ادْفَعْ بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ السَّیِّئَةَ”، الغرض ہر معاملے میں بہترین عمل کا تقاضا کیا ہے۔
وَأَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ اور ناپ تول میں انصاف سے پورا پورا دینا
ناپ تول میں کمی کی سزا
حضرت شعیبؑ کی قوم کو ناپ تول میں کمی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا گیا۔ قرآن میں تین مرتبہ ناپ تول میں کمی سے منع کیا گیا ہے۔
میزان اور عدل کا مفہوم
“کیل” کا مطلب پیمانہ بھی ہے اور پیمانہ کرنا بھی۔ “قسط” کا مطلب انصاف ہے، جو یا تو لین دین میں عادلانہ ہونا چاہیے یا خود پیمانے اور ترازو میں انصاف ہونا چاہیے۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ یہی ہے کہ عدل کے مطابق پیمائش کی جائے۔
پیغامات
1. چونکہ یتیم کا کوئی محافظ نہیں ہوتا اور اس کے مال میں خیانت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے اس کے مال کے قریب جانے میں احتیاط کی جائے۔ «لا تَقْرَبُوا»
2. یتیم کے مال کو استعمال کرنے میں بہترین طریقہ اختیار کریں۔ یتیم کے حقوق کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مال کو بہترین طریقے سے استعمال کیا جائے۔ «بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ»
صرف وہی افراد یتیم کے مال کے قریب جا سکتے ہیں جو مالی طور پر قابل اعتماد اور متقی ہوں۔ «لا تَقْرَبُوا … إِلَّا»
3. یتیم جب سمجھدار ہو جائے تو اسے خودمختاری دی جائے۔ جب یتیم عقل و شعور اور تجربے کی سطح تک پہنچ جائے تو اس کو اپنے مال کا ذمہ دار بنایا جائے۔ «حَتَّی یَبْلُغَ أَشُدَّهُ»
4. اسلامی معیشت کا نظام عدل پر مبنی ہو۔ اسلامی معاشرے میں اقتصادی نظام انصاف پر استوار ہونا چاہیے۔ «بِالْقِسْطِ»
5. عدل کی مکمل پابندی ممکن نہ ہو تو کم از کم استطاعت کے مطابق کریں۔ اگر اعلی سطح پر عدل کا قیام ممکن نہ ہو تو جہاں تک بس چلے، عدل اختیار کرنا ضروری ہے۔ «لا نُکَلِّفُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها»
6. اللہ کے تمام احکام انسان کی طاقت کے مطابق ہیں۔ اللہ کا کوئی بھی حکم انسان کی استطاعت سے بڑھ کر نہیں ہے۔ «لا نُکَلِّفُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها»
7. طاقت کے بغیر کسی پر بوجھ نہیں ڈالا جاتا ہے۔ جب تک کسی کے پاس استطاعت اور طاقت نہ ہو، اس پر کسی قسم کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاتی۔ «لا نُکَلِّفُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها»
8. عدل، گفتار اور کردار میں بنیادی اصول ہے۔ انصاف صرف عمل میں نہیں بلکہ گفتار میں بھی لازم ہے، خواہ وہ گواہی ہو خواہ وصیت، فیصلہ، تنقید یا تعریف ہو۔ «أَوْفُوا الْکَیْلَ … وَ إِذا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا»
9. اللہ کے عہد کی پاسداری کریں۔ اللہ کے عہد کی وفاداری ضروری ہے، چاہے وہ عقل، وحی، ضمیر یا فطرت کے ذریعے کیا گیا ہو۔ «بِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا»
10. رشتہ داری پر حق و انصاف کو ترجیح دیں۔ عدل و انصاف کو رشتے داری یا ذاتی تعلقات پر مقدم رکھیں، خواہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ «فَاعْدِلُوا وَ لَوْ کانَ ذا قُرْبی»