تحریر:سید سرفراز احمد
اسرائیل اور حماس کے درمیان پندرہ ماہ تک چلنے والی طویل جنگ اپنے انجام تک نہ پہنچتے پہنچتے بہت کچھ حقائق اور اسرائیل کی کمزوریاں دنیا کے سامنے لاتی رہی کیونکہ جس طرح اسرائیل اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کرتا تھا ایسی بہت سی غلط فہمیوں کا حماس نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیا جس اسرائیل کو اپنی ٹکنالوجی اور وسائل پر رعب تھا جو کبھی گھٹنے ٹیکنے کی بات تو کوسوں دور ہے بلکہ وہ حماس کو سرے ختم کرنے کے دعوے کرتا تھا لیکن بالآخر اسی اسرائیل کو حماس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا جو اسرائیل ظلم اور ہتھیار سے بات کرتا تھا وہ مزاکرات پر آمادہ ہوا اہل فلسطین اور حماس کی یہی سب سے بڑی جیت ہے دنیا نے دیکھا کہ جنگ بندی کے بعد نو مرحلوں میں قیدیوں کی رہائی کا کیسا طرز عمل تھا ہر مرحلے نے حماس ایک ایک منفرد خصوصیات کو دنیا کے سامنے پیش کرتی رہی اور دنیا دانتوں تلےانگلی چباۓ بغیر نہیں رہ سکی جس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ فلسطین اور حماس ایک جاں دو قالب کے مترادف ہے۔
جنگ بندی کے بعد امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جس انداز سے جنونی کیفیت میں جارحانہ بیانات کی بوچھار لگادی ہے جس سے ان کا زہنی دیوالیہ پن اپنے آپ آشکار ہورہا ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے ماہ غزہ کو پاک کرنے کا ایک منصوبہ پیش کیا تھا وہ چاہتے ہیں کہ مصر اور اردن سمیت عرب ممالک اہل غزہ و دیگر فلسطینیوں کو پناہ دیں تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں امن قائم کیا جاسکے ٹرمپ کا منصوبہ فلسطین کی عوام کو عرب ممالک میں بسانا مقصود تھا نہ ہی یہ منصوبہ ہمدردی کی نیت سے ہے نہ ہی انسانیت کا معیار رکھتا ہے۔
کیونکہ ٹرمپ نے اس اقدام کو عارضی اور طویل مدتی ہونے کی بھی بات کہی تھی جس کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد تھا کہ ٹرمپ اپنے منصوبے کے ذریعہ اہل فلسطین کی ارض پاک پر یہودی اسرائیل کو بسانا چاہتے ہیں لیکن ٹرمپ کے اس ناقص منصوبے کو مصر اور اردن نے مسترد کردیا بلکہ حماس نے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوۓ کہا کہ فلسطینی عوام اپنی سرزمین کے لیئے پندرہ ماہ تک موت اور تباہی برادشت کی ہم ایسی کسی تجویز کو منظور ہونے نہیں دیں گے بلکہ مزید کہا کہ ہم غزہ کی پہلے سے بہتر تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بشرط یہ کہ اس علاقے کا محاصرہ ختم کر دیا جائے دوسری جانب عرب ممالک کے رہ نماؤں نے ٹرمپ کے بمقابلے ایک ایسے منصوبے کی حمایت کی ہے جس کے تحت غزہ کی تعمیر نو فلسطینی اتھارٹی کے تحت کی جائے گی لیکن اسرائیل نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر غزہ کی تعمیر و ترقی سے متعلق مصنوعی ذہانت سے ٹرمپ غزہ کے نام سے ایک ویڈیو شائع کی تھی اس ویڈیو سے ٹرمپ کے مقاصد ان کی نچلی درجہ کی سوچ اور زہنی مریض ہونے کا بھر پور اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس میں ٹرمپ کا ایک بڑا مجسمہ سنہری رنگ میں نصب کیا ہوا ہے ان کے قریبی دوست ایلون مسک اسنیکس کھاتے ہوۓ لطف اندوز ہورہے ہیں بکنی میں ملبوس مرد موجود ہیں ٹرمپ رقص کررہے ہیں نتن یاہو اور ٹرمپ نیم برہنہ بیچ کے کنارے دھوپ سینک رہے ہیں فلک بوس عمارتیں کھڑی دکھائی دے رہی ہیں بار بار ویڈیو میں یہ بتایا گیا کہ ٹرمپ کا غزہ آگیا یہ ٹرمپ کی وہ منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس کو ٹرمپ اہل غزہ کی سرزمین ہڑپ کر اپنے نام سے موسوم کرنا چاہتے ہیں یا پھر گریٹر اسرائیل کے خواب کو پورا کرنا چاہتے ہیں گویا کہ ٹرمپ جنونی کیفیت میں حد سے تجاوز کرتے ہوۓ اپنے دوسرے دور میں دنیا کو ایک الگ رخ پر لے جانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ٹرمپ کو یہ اندازہ نہیں مل رہا ہے وہ خود کا اور اپنے ملک کا قد دنیا کی نظروں میں مزید گھٹارہے ہیں۔
ٹرمپ نے جس طرح سے بیس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو عرب ممالک کی طرف منتقل کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا ساتھ ہی پانچ عرب ممالک جن میں سعودی عربیہ،قطر،مصر،اردن، اور یو اے ای نے اس کی مخالفت کی بلکہ مصر کی جانب سے ٹرمپ کے منصوبے کا متبادل بھی پیش کیا گیا جو 91 صفحات پر مشتمل ہے جس میں دل کش عمارتی ڈیزائنز ہیں تین روز قبل قاہرہ میں پانچ عرب ممالک کا اجلاس طلب کیا گیا جس میں غزہ کی از سر نو تعمیر پر گفتگو ہوئی اور اس مصری منصوبے کو تمام عرب ممالک نے توثیق بھی کردی ہے بتایا گیا کہ یہ پانچ سالہ منصوبہ ہے جس پر 53 عرب ڈالر کا خرچ بتایا گیا کیونکہ اقوام متحدہ کے حوالے سے دیکھا جاۓ تو غزہ 90 فیصد پوری طرح سے تباہ ہوچکا ہے اس اجلاس میں امیر قطر متحدہ عرب امارت کے نائب صدر اور سعودی عربیہ کے وزیر خارجہ نے شرکت کی دلچسپ بات دیکھئے اس اجلاس میں سعودی پرنس محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے امیر محمد بن زائد النہیان نے شرکت کیوں نہیں کی؟
یہاں کچھ اہم سوالات ہے جس کو سمجھنا انتہائی اہم ہے مصر نے غزہ کی تعمیر کا منصوبہ کیوں پیش کیا؟ غزہ کی دوبارہ تعمیر کے بعد وہاں کی کمان کس کے ہاتھ میں ہوگی؟غزہ کی از سر نو تعمیر پر سرمایہ کون لگاۓ گا؟کیا اسرائیل اور امریکہ کی رضا مندی کے بغیر یہ منصوبہ کامیاب ہوگا؟ان پندرہ ماہ کی طویل جنگ اور ملک شام میں انقلاب کی آمد کے بعد مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی بوکھلاہٹ کا شکار رہے ہیں کہیں نہ کہیں انھیں یہ ڈر ستاۓ جارہا تھا کہ کہیں اس انقلاب کی دستک گردش کرتے ہوۓ مصر تک نہ پہنچ جاۓ خیر یہ تو ایک دن ہونا طئے ہے شائد اسی آگ کو ٹھنڈا کرنے السیسی نے غزہ کے متعلق نرم رویہ اپناۓ ہوۓ ہیں چلیئے مان لیتے ہیں عرب ممالک نے جنگ میں نہ صحیح جنگ بندی کے بعد ٹرمپ کے بمقابلے ایک اہم پیش رفت دکھاکر غزہ کی از سر نو تعمیر کی طرف آگے بڑھ کر دکھایا ہے ظاہر ہے اس میں اہم کردار قطر کا ہوگا کیونکہ قطر روز اول سے حماس کا بھر پور ساتھ دے رہا ہے لیکن سوال یہ سامنے آرہا ہے کہ کیا ٹرمپ کی منصوبہ بندی و تجویز کے سامنے سعودیہ اور متحدہ عرب امارات ثابت قدمی سے ٹھر پائیں گے؟سوال یہ بھی پیدا ہورہا ہے کہ اگر واقعتاً سعودیہ اور متحدہ عرب امارات غزہ کی از سر نو تعمیر چاہتے ہیں تو مصر کے اس اجلاس میں ان امراء نے شرکت کیوں نہیں کی؟
اہم اور بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟ اس بارے میں مصر نے تجویز دی ہے کہ جلد از جلد بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ تعمیر نو ممکن ہو سکے تعمیر کے لیئے خلیجی ریاستیں اس خطیر رقم کے لیے کچھ حصہ ادا کرنے کو تیار ہیں اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے قریب 50 ارب ڈالر درکار ہوں گےتاہم کوئی بھی سرمایہ کاری کرنے کو تب تک تیار نہیں ہوگا جب تک انھیں اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ یہ جنگ مکمل طور پر جنگ بندی میں شامل ہوجاۓ اس پورے مشن میں بڑا سرمایہ سعودیہ قطر یو اے ای کا ہوسکتا ہے لیکن جب سے امریکی صدر نے اپنے منصوبے پر بات کی ہے تب سے عرب ریاستیں الجھن کا شکار بنی ہوئی ہیں اب دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ عرب ریاستیں غزہ کی از سر نو تعمیر کا صرف متبادل پیش کررہی ہیں یا اس کو عملی جامہ تک پہنچا پاۓ گی یا نہیں؟
دوسرا حساس پہلو یہ ہے کہ لڑائی کے خاتمے کے بعد غزہ کا انتظام کس کے پاس ہو گا؟مصدقہ زرائع سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ غزہ کی از سر نو تعمیر کے بعد ایک عبوری انتظام اور ایک ایسی کمیٹی بنانے کی بھی تجویز دی گئی ہے جسے فلسطینی حکومت کے ساۓ تلے غزہ مینجمنٹ کمیٹی کا نام دیا جائے گا مزید اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا جاۓ گا کہ وہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی امن دستے تعینات کرے جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کی سلامتی کو یقینی بنانے میں کردار ادا کریں حماس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ قبول کر چکی ہے کہ غزہ کو چلانے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہو گا لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حماس اب بھی غزہ میں فوجی اور سیاسی غلبہ رکھتی ہے یہاں اس بات تذکرہ کرنا لازمی ہے کہ کچھ عرب ریاستیں حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں بعض کا خیال ہے کہ ان فیصلوں کو فلسطینی عوام پر چھوڑ دیا جانا چاہیے جب کہ حماس خود کہتی ہے کہ ان کے گروپ کو غیر مسلح کرنا ان کے لیے ’سرخ لکیر‘ کے مترادف ہے۔
اس پوری جنگ کے دورانیئے میں حماس کی طاقت اور اس کی استقامت کو نہ صرف عرب بلکہ دنیا نے دیکھا کہ ایک معمولی مسلح گروپ نے غیر معمولی طاقتوں کو زیر کردیا اسی نوعیت سے فلسطینی عوام بلکہ دنیا کا ہر انصاف پسند شخص بھی یہی چاہے گا کہ غزہ کا کنٹرول حماس کے پاس ہونا چاہیئے دو روز قبل تل ابیب میں اسرائیل کے فوجی سربراہ یال زامیر نے اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ جنرل ہرزی ہلیوی کی جگہ لی ہے جنہوں نے حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد فوج کی ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا جس میں اسرائیل کی جانب سے اعتراف کیا گیا کہ فوج مکمل طور پر حملے کو روکنے میں ناکام رہی ابھی ایک دن قبل ہی القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے للکارتے ہوۓ کہا کہ دشمن کی جنگ کی دھمکیاں اسے مایوس ہی کریں گی اور اس کے قیدیوں کی رہائی کا باعث نہیں بنیں گی جب کہ ہم تمام امکانات کے لیے تیاری کی حالت میں ہیں یہ ایک طرح سے اسرائیل اور امریکہ کو ایک چیلنج ہے کہ وہ اپنی اوچھی حرکتوں سے باز آجائیں ورنہ ہم کسی بھی حد تک جانے کے لیئے تیار ہیں یہ بات عرب ممالک کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ اگر اہل فلسطین کی خاطر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وہ منافقت سے باہر نکلیں بجاۓ امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے حماس کی قیادت کو قبول کرتے ہوۓ غزہ کی از سر نو تعمیر کرتے ہوۓ اہل غزہ کے ساتھ اپنے ایمانی رشتے کی ایک مثال قائم کریں کیونکہ اب تک کی حماس کی کارکردگی یہی بتارہی ہے کہ حماس ہی فلسطین کا سب سےبہتر مستقبل ہوسکتا ہے۔