مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک: اللہ تعالی نے دین اسلام کو انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا اور ان کی ترقی اور پیشرفت کے ضروری تمام وسائل فراہم کیے ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے پیغامات اور احکام کو بیان کیا ہے۔ ان کو سیکھنے اور سمجھنے کے لئے تفسیر اور توضیح کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کی تفسیر اور اس کو سمجھنے کی کوشش نبی اکرم (ص) کے زمانے سے آج تک جاری ہے۔ قرآن کی ابدیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہر دور میں اس کی تشریح اور وضاحت جاری رہے، کیونکہ قرآن کی آیات دین کو سمجھنے کا سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہیں۔
قرآن مجید کو انسانوں کے لئے ہدایت قرار دیا گیا ہے: (ہُدیً لِلنَّاسِ) “یہ انسانوں کے لیے ہدایت ہے”
“زندگی قرآنی آیات کی روشنی میں” کے سلسلہ تحریر کا مقصد قارئین کو آیات قرآنی کے معانی، مفاہیم اور پیغامات سے آگاہ کرنا ہے۔
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْیَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّینَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَیٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ (مائدہ،2)
اے ایمان والو! تم اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانور کی اور نہ ان جانوروں کی جن کے گلے میں پٹے باندھ دیے جائیں اورنہ ان لوگوں کی جو اپنے رب کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں بیت الحرام کی طرف جا رہے ہوں، ہاں! جب تم احرام سے باہر آجاؤ تو شکار کر سکتے ہو اور جن لوگوں نے تمہیں مسجد الحرام جانے سے روکا تھا کہیں ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم بھی (ان پر)زیادتیاں کرنے لگو اور (یاد رکھو) نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ کا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔
“ہدی” وہ جانور ہے جس پر کوئی نشان نہ ہو اور جو قربانی کے طور پر حج کے دوران پیش کیا جائے۔
“قلائد” وہ جانور ہیں جنہیں حج کے آغاز سے پہلے کسی نشانی کے ساتھ نشان زد کیا جاتا ہے تاکہ وہ حج کے مناسک میں قربانی کے طور پر پیش کیے جائیں۔
اللہ تعالی نے اس آیت کی ابتدا میں تمام شعائر کا احترام فرض اور ان کی بے حرمتی کو حرام قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مخصوص شعائر کا ذکر کیا ہے مثلا رجب، ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم، جن میں جنگ حرام ہے، اور خاص طور پر ذی الحجہ کے مہینے کا ذکر کیا ہے، جو حج کا مہینہ ہے۔
ششم ہجری میں مسلمان 80 فرسخ کا سفر طے کرکے مدینہ سے مکہ آئے تھے تاکہ حج ادا کرسکیں لیکن کفار نے انہیں روکا اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا۔ اب جب مکہ فتح ہو چکا ہے، تو مسلمانوں کو کسی قسم کی زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ “صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ” انہوں نے تمہیں مسجد الحرام سے روکا تھا۔
اگر علم حاصل کرنا “بِرّ” یعنی نیک عمل ہے، تو اس کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں جیسے کہ اسکول کی تعمیر، کتابیں، کتب خانہ، لیبارٹری، نقل و حمل کا ذریعہ، استاد وغیرہ فراہم کرنا یہ سب نیکی میں تعاون ہے۔
نیکی کے مصادیق
سورہ بقرہ کی آیت 177 میں “برّ” کے کچھ مصادیق بیان کیے گئے ہیں: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ الْمَلائِكَةِ وَ الْكِتابِ وَ النَّبِيِّينَ وَ آتَى الْمالَ عَلى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبى وَ الْيَتامى وَ الْمَساكِينَ وَ ابْنَ السَّبِيلِ وَ السَّائِلِينَ وَ فِي الرِّقابِ وَ أَقامَ الصَّلاةَ وَ آتَى الزَّكاةَ وَ الْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذا عاهَدُوا وَ الصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَ الضَّرَّاءِ وَ حِينَ الْبَأْسِ أُولئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُتَّقُون
نیکی یہ نہیں ہے کہ اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف کرلو بلکہ نیکی اس شخص کا حصّہ ہے جو اللہ اور آخرت ملائکہ اور کتاب پر ایمان لے آئے اورمحبت خدا میں قرابتداروں ً یتیموںً مسکینوں ً غربت زدہ مسافروںً سوال کرنے والوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے مال دے اور نماز قائم کرے اور زکوِٰ ادا کرے اور جو بھی عہد کرے اسے پوراکرے اور فقر وفاقہ میں اور پریشانیوں اور بیماریوں میں اور میدانِ جنگ کے حالات میں صبرکرنے والے ہوںتویہی لوگ اپنے دعوائے ایمان و احسان میں سچے ہیں اور یہی صاحبان تقویٰ اور پرہیزگار ہیں
“برّ” یعنی نیکی میں اللہ، قیامت، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور انبیاء پر ایمان رکھنا، محروموں کی مدد کرنا، معاہدوں کی پابندی کرنا، اور مشکلات میں صبر کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
بہت ساری روایات میں نیک کاموں میں تعاون کرنے اور مظلوموں و محروموں کی مدد کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور ظلم کرنے والوں کی مدد سے منع کیا گیا ہے۔ ہم یہاں کچھ حدیثیں ذکر کرتے ہیں تاکہ زیادہ واضح ہوجائے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: “جو شخص دوسروں کی مدد کے لیے قدم اٹھائے، اسے اللہ کی راہ میں جہاد کا ثواب ملے گا۔”
دوسرے مقام پر فرمایا “جب تک انسان دوسروں کی مدد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اللہ تعالی بھی مدد کرتا رہے گا۔”
“مسلمان کی مدد کرنا ایک مہینہ مستحب روزہ رکھنے اور اعتکاف سے بہتر ہے۔”
اس کے برعکس ظلم اور ظالموں کی مدد اور ان کے ساتھ تعاون سے منع کیا گیا ہے: “جو شخص ظالم کی مدد کرے، وہ خود بھی ظالم ہے۔”
پیغامات
1. اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے خاص توقعات رکھتا ہے۔
2. شعائر اللہ کا احترام ایمان والوں پر فرض ہے۔ «یا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ»
3. شعائر اللہ کی بے حرمتی اور تقدس کو پامال کرنا حرام ہے۔ «لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ»
4. تمام اوقات برابر نہیں ہیں، کچھ دن جیسے ایّام اللہ اور کچھ مہینے جیسے ماہِ حرام کو خاص عزت دینی چاہیے۔ «وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرامَ»
5. جو جانور بھی اللہ کی راہ میں اور نیک مقصد کے لیے مقرر ہو، اسے احترام حاصل ہے۔ «وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلائِدَ»
6. اللہ کے گھر کی زیارت کرنے والوں کا احترام کرنا ضروری ہے۔ «وَ لَا آمِّینَ الْبَیْتَ الْحَرامَ» (ہر وہ کام جو کعبۃ اللہ کے زائرین اور حاجیوں کی عزت اور سلامتی کو نقصان پہنچائے، حرام قرار دیا گیا ہے۔)
7. حج کا اصل مقصد کعبہ کی زیارت ہے۔ «آمِّینَ الْبَیْتَ»
8. حج اور عمرہ دونوں دنیوی و اخروی فوائد کا ذریعہ ہیں۔ «یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ وَ رِضْواناً»
9. حلال روزی کمانا ایک ارزشمند کام ہے۔ «یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ وَ رِضْواناً»
10. تمام اسلامی ممالک کو مکہ میں اقتصادی و تجارتی سرگرمیاں انجام دینے میں آزادی ہے۔ «یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ»
11. مادی فوائد اللہ کی طرف سے انسان پر خاص فضل ہیں اور یہ اللہ کی ربوبیت کے امور میں شامل ہیں۔ «فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ»
12. کسی زمانے میں دوسروں کے ساتھ دشمنی ہونا دوسرے زمانے میں ان پر ظلم و زیادتی کا جواز نہیں۔ «وَ لا یَجْرِمَنَّکُمْ … أَنْ تَعْتَدُوا»
13. ظلم اور زیادتی حرام ہے خواہ دشمنوں پر ہی کیوں نہ ہو۔ انتقام میں بھی عدل کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ «شَنَآنُ قَوْمٍ … أَنْ تَعْتَدُوا»
14. دینی جذبات کو ظلم کا جواز نہیں بنانا چاہیے۔ «صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ أَنْ تَعْتَدُوا»
15. وعدوں کی پاسداری اور شعائر اللہ کی حرمت و تقدس کا تحفظ، تعاون اور باہمی مدد کا متقاضی ہے۔ «لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ … وَ تَعاوَنُوا»
16. دوسروں کی غلطیوں سے چشم پوشی کرنا، نیکی میں تعاون کا ایک طریقہ ہے۔ «لا یَجْرِمَنَّکُمْ … تَعاوَنُوا»
17. اسلامی حکومت اور معاشرے کو بین الاقوامی سطح پر مظلوموں کی مدد اور اچھے کاموں کی حمایت کرنی چاہیے۔ اسی طرح ظالموں اور برائیوں کی مذمت کرنی چاہیے۔ «تَعاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوی وَ لا تَعاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ»
18. نیکی کی انجام دہی کے لیے مناسب ماحول فراہم کرنا ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول میں تعاون کرنا چاہیے۔ «تَعاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ»
19. قبائل، علاقے، نسل یا زبان کے بجائے حق اور نیکی کی حمایت کرنا ضروری ہے۔ «تَعاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ»
20. جو لوگ شعائر اللہ کی بے حرمتی کرتے ہیں اور برائیوں میں مدد کرتے ہیں، وہ اللہ کے سخت عذاب کے لیے تیار رہیں۔ «وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ»