مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیٹی کے رکن علی خضریان نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی پر تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ایجنسی نے ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی میں کیا تکنیکی مدد فراہم کی ہے؟
انہوں نے کہا کہ ایجنسی کے سربراہ کو سیاسی تنازعات کو ہوا دینے کے بجائے تکنیکی معاملات پر تبصرہ کرنا چاہیے۔ وہ ایران کے 60 فیصد افزودہ یورینیم کے 275 کلوگرام ذخیرے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، حالانکہ NPT کے آرٹیکل 4 کے مطابق ایرانی قوم کو پرامن جوہری توانائی سے استفادہ کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رفائل گروسی اچھی طرح جانتے ہیں کہ تہران کا تحقیقاتی ری ایکٹر ریڈیو میڈیسن کی تیاری کے لیے 93 فیصد افزودہ یورینیم کا محتاج ہے۔ اس لحاظ سے 60 فیصد افزودگی اور اس کا طبی و غیرطبی شعبوں میں استعمال بالکل قانونی ہے۔
خضریان نے عالمی ادارے کے دوہرے معیارات پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گروسی یہ دعوی کر رہے ہیں کہ ایران پروٹوکول الحاقی پر عمل نہیں کررہا، حالانکہ وہ بھول گئے ہیں کہ ایران نے اس پروٹوکول پر عمل درآمد رضاکارانہ طور پر کیا تھا، جو کہ صرف اس وقت لاگو ہوگا جب ایران پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں گی۔ لہٰذا گروسی کو مغربی ممالک کو جوہری معاہدے اور اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 پر عمل درآمد کے لیے مجبور کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گروسی ایران کے خفیہ جوہری مقامات کے حوالے سے صیہونی حکومت کے بے بنیاد دعووں کا حوالہ دے رہے ہیں جبکہ ایران کی تمام جوہری سرگرمیاں ایجنسی کی نگرانی میں ہیں اور مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔
علی خضریان نے خبردار کیا کہ ایرانی پارلیمنٹ قومی مفادات کے خلاف کسی بھی اقدام کے خلاف سخت ردعمل دے گی اور ضرورت پڑنے پر نئے قوانین بنا کر اس کا جواب دے گی۔
انہوں نے جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ایران کے جوہری معاملات پر غیر ضروری خدشات ظاہر کر رہے ہیں، جبکہ یہ معاملات برسوں پہلے حل ہوچکے ہیں۔