مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی گروپ: شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ملک کی جیو پالیٹکس میں زبردست تبدیلی رونما ہوئی۔ اس دوران دہشت گرد گروہ تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی نے اقتدار پر قبضہ کیا جب کہ صیہونی حکومت نے اس ملک کے فوجی اہداف کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا اور گولان کے علاقوں پر قبضہ کرکے شام کے اسٹریٹجک مقامات کو اپنے کنٹرول میں لیا ۔
نیتن یاہو اور ان کے اتحادی شام کے موجودہ حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک کے حصے بخرے کرنے کے لئے اپنی کوششوں میں تیزی لا رہے ہیں تاکہ انھیں شمالی عراق تک مکمل رسائی حاصل ہو سکے۔
اس مضمون میں، ہم شام میں اسرائیلی حکومت کے اقدامات اور دروزیوں کی حمایت کے مقصد سے اس کے طویل مدتی منصوبوں کا جائزہ لیں گے۔
کیا صیہونی رژیم شمالی سرحدوں کو تبدیل کرنا چاہتی ہے؟
تحریر الشام کے دہشت گردوں اور مسلح دروزیوں کے درمیان لڑائی شروع ہونے کے بعد صیہونی رژیم دروزیوں کی واضح حمایت کرنے لگی ہے۔جنوبی شام میں فریقین کے درمیان کشیدگی کے عروج کے بعد، نیتن یاہو اور کاتز نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ وہ دروزیوں کے حقوق کے دفاع کو ضروری سمجھتے ہیں!
صیہونی حکام نے شام کے جنوبی علاقوں میں رہنے والے دروز کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے انہیں مقبوضہ فلسطین میں کام کے بدلے پرکشش تنخواہوں کی پیشکش کی۔
صیہونی حکومت اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے شام کی تقسیم کے درپے ہے۔ کیونکہ شام کے جنوبی علاقوں جیسا کہ جبل الشمس اور جبل العرب کی نگرانی سے “ڈیوڈ کوریڈور” کو عملی جامہ پہنانے کی بنیاد ملے گی۔
اگر اس راہداری کو عملی جامہ پہنایا جائے تو صیہونی حکومت کے زیر کنٹرول علاقے شیعہ عراق کی سرحدوں تک پھیل جائیں گے۔ اس لیے صیہونیوں کے لیے حتی عارضی اتحادیوں کی تشکیل جنوبی شام میں وسیع تبدیلیوں اور مستقبل میں اقتصادی اہداف کی بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔
دمشق کے مضافات میں القنیطرہ، السویدہ، درعا اور یہاں تک کہ جرمنا کے علاقے میں صیہونی فوج کی پیش قدمی شام کے بارے میں اس رژیم کے منصوبے کی سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔
اس کے علاوہ جنوبی شام کی تقسیم سے صیہونیوں کو اپنے اور شام کے درمیان ایک بفر زون بنانے کا امکان فراہم ہو گا اور اس طرح صہیونیوں کو دروزیوں کے حقوق کے دفاع کے بجائے شام سے لاحق خطرات کم کرنے کا موقع فراہم ملے گا۔
اس سے قبل، شام میں مزاحمتی افواج نے اپنی فعال موجودگی کے ذریعے صہیونی فوج کو گولان کی پہاڑیوں میں پیش قدمی کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، لیکن اب شام میں حکومت کی تبدیلی کے بعد نیتن یاہو نے 1974 کے معاہدے سے دستبردار ہونے اور گولان کی تمام پہاڑیوں خصوصاً ہرمون کی پہاڑیوں پر قبضہ کرنے کی جرات کی۔
ایسی صورت حال میں اقتدار پر قابض دہشت گرد گروہ تحریر الشام، کو دو انتہائی مشکل یا پیچیدہ آپشنز کا سامنا ہے۔ پہلا، جنگ کا انتخاب کرنا اور اسٹرٹیجک ہتھیاروں کے بغیر صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ میں داخل ہونا، اور دوسرا، امن کی طرف بڑھنا اور شام کی ارضی سالمیت کو بحال کرنے کا واحد راستہ ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونا!
صیہونی سازش کے خلاف دروز اقلیت کی ہوشیاری
رشیا ٹو ڈے نے اپنی ایک رپورٹ میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے حالیہ بیان پر شامی دروز کے ردعمل کی طرف اشارہ کیا ہے: نیتن یاہو کی جانب سے دروزی قبیلے کی حمایت پر انہوں نے سخت ردعمل دکھایا ہے۔ اگرچہ وہ شام کی موجودہ صورتحال سے مطمئن نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ شامی ہونے اور اپنے ملک کی حمایت پر اصرار کرتے ہیں۔ دروز کو معلوم ہے کہ صیہونی حکومت شام کے حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایک دروزی سرکردہ شیخ ادھم عبدالحق نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی رژیم اپنے مفادات کے لئے شام کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔
دمشق کے نواحی علاقے میں ڈاکٹر ملہم راشد نے بھی اس بات پر زور دیا کہ دروز اقلیت شام میں تاریخی جڑیں رکھتی ہے اور کوئی بھی اسے نشانہ نہیں بنا سکتا۔
شام کو تقسیم کرنے کی صیہونی ڈاکٹرائن
صیہونی حکومت کی “نئی امید” پارٹی کے رہنما گیدون ساعر نے وزارت خارجہ کے عہدے پر تعینات ہونے کے بعد، باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ صیہونی حکومت خطے میں تمام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بالخصوص کردوں کا دفاع کرے گی!
یہ بیانات ایک ایسے وقت میں دیے گئے ہیں جب مشرقی عرب خطے کے ممالک، یعنی لبنان، شام اور عراق، اپنے قیام کے بعد سے اب تک کی سب سے پیچیدہ سیاسی-سکیورٹی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس دوران صیہونیوں کے لیے وسیع امریکی فوجی امداد نے تل ابیب کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ “عظیم مشرق وسطیٰ” کے عنوان سے خطے کا نقشہ بدلنے کا منصوبہ بنا سکے۔
سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد، کرد مسئلہ خطے میں سب سے زیادہ چیلنجنگ نسلی مسائل میں سے ایک رہا ہے۔
صیہونی حکومت کردوں اور دروز جیسی اقلیتوں کی ظاہری حمایت کا اعلان کرکے شام کی تقسیم کے درپے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی شام کو تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
نتیجہ سخن
نیتن یاہو اور ان کے اتحادی شام کے موجودہ حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک کے حصے بخرے کرنے کے لئے اپنی کوششوں میں تیزی لا رہے ہیں تاکہ انھیں شمالی عراق تک مکمل رسائی حاصل ہو سکے۔
شام پر قابض حکومت ماضی کے مقابلے میں جتنی زیادہ کمزور ہوگی، تل ابیب کے لئے فوجی موجودگی اتنی ہی آسان ہوگی۔ کیونکہ ایک تو انہوں نے ایران اور مزاحمتی محور کے درمیان مواصلاتی راستوں کی تشکیل کو روکا ہے اور دوسرا یہ کہ دیگر علاقائی اداکار شام کو کٹھ پتلی کے طور پر استعمال نہیں کر سکیں گے۔
دوسری جانب شام کے ٹکڑے ہونے سے گولان اور اسٹریٹیجک علاقوں پر صیہونی حکومت کے تسلط کا امکان بڑھ جاتا ہے۔