روزہ انسان کے لئے بہیمی اور حیوانی عنصر پر روحانی اور ملکوتی عنصر کو غالب کرنے کا سبب: مولانا قاضی اسد ثنائی

حیدرآباد: اللہ سبحانہ و تعالٰی نے انسان کو روحانیت اور حیوانیت کا یا دوسرے الفاظ میں ملکوتیت اور بہیمیت کا نسخہ جامعہ بنایا ہے اس کی طبیعت اور جبلت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی موجود ہیں جو دوسرے جانوروں میں پاۓ جاتے ہیں اور اسی کے ساتھ اس کی فطرت میں روحانیت اور ملکوتیت کا وہ نورانی جوہر بھی رکھا ہے جو ملاء اعلی کی لطیف مخلوق فرشتوں کی خاص دولت ہے-

انسان کی سعادت کا دارومدار اس پر ہے کہ اس کا یہ روحانی اور ملکوتی عنصر بہیمی اور حیوانی عنصر پر غالب اور حاوی رہے اور اس کو حدود کا پابند رکھے اور یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ بہیمی پہلو روحانی اور ملکوتی پہلو کی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری کا عادی ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی نہ کر سکے-

روزہ کی ریاضت کا خاص مقصد و موضوع یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی حیوانیت اور بہیمیت کو اللہ سبحانہ و تعالٰی کے احکام کی پابندی اور ایمانی و روحانی تقاضوں کی تابعداری و فرمانبرداری کا خوگر بنایا جائے اور چونکہ یہ چیز نبوت اور شریعت کے خاص مقاصد میں سے ہے اس لئے پہلی تمام شریعتوں میں بھی روزہ کا حکم رہا ہے

اللہ سبحانہ و تعالٰی نے قرآن مجید میں اس امت کو روزے رکھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ” اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم میں تقوی پیدا ہو ” روزہ چونکہ انسان کی قوت بہیمی کو اس کی ملکوتی اور روحانی قوت کے تابع کرنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں نفس کی خواہشات اور شہوت کے تقاضوں کو دبانے کا خاص ذریعہ اور وسیلہ ہے

اس لئے اگلی امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا حضرت مولانا قاضی ابواللیث شاہ محمد غضنفر علی قریشی اسد ثنائی صدر نشین الانصار فاؤنڈیشن و خطیب جامع مسجد محبوبیہ ریاست نگر نے نماز جمعہ سے قبل خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا مولانا نے بخاری و مسلم کی حدیث کے حوالے سے مزید کہا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔

اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں بجائے ” ابواب جنت ” کے ” ابواب رحمت ” کا لفظ آیا ہے-

اللہ سبحانہ و تعالٰی کے صالح اور اطاعت شعار بندے رمضان المبارک میں چونکہ طاعات و حسنات میں مشغول و منہمک ہو جاتے ہیں وہ دن کو روزہ رکھ کر ذکر و تلاوت میں گزارتے ہیں اور راتوں کا بڑا حصہ تراویح و تہجد اور دعا و استغفار میں بسر کرتے ہیں اور ان کے انوار و برکات سے متاثر ہو کر عوام کے قلوب بھی رمضان المبارک میں عبادات اور نیکیوں کی طرف زیادہ راغب اور بہت سے گناہوں سے دور ہو جاتے ہیں-

مسلم معاشرے میں سعادت اور تقوے کے اس عمومی رجحان اور نیکی و عبادت کی اس عام فضا کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے وہ تمام طبائع جن میں ذرا سی بھی صلاحیت ہوتی ہے

اللہ کریم کی مرضیات کی جانب مائل اور شر و خباثت سے متنفر ہو جاتی ہیں اور اس ماہ مبارک میں تھوڑے سے عمل خیر کا ثواب بھی اللہ تعالٰی کی جانب سے دوسرے مہینوں کی بہ نسبت بہت زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے، تو ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

اور جہنم کے دروازے ان پر بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین ان کو گمراہ کرنے سے عاجز اور بے بس ہو جاتے ہیں- مولانا نے اس حدیث پاک کی وضاحت کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ جنت و رحمت کے دروازے کھل جانے، دوزخ کے دروازے بند ہو جانے اور شیاطین کے مقید اور بے بس کر دیے جانے کا تعلق صرف ان اہل ایمان سے ہے جو رمضان المبارک میں خیر و سعادت حاصل کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں اور رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفید ہونے کے لئے عبادت و طاعات کو اپنا شغل بناتے ہیں-

باقی رہے وہ کفار، خدا نا شناس اور خدا فراموش و غفلت شعار لوگ جو رمضان اور اس کے احکام و برکات سے کوئی سروکار ہی نہیں رکھتے اور نہ اس کے آنے پر ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی آتی ہے ظاہر ہے اس قسم کی بشارتوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں، انہوں نے جب اپنے آپ کو خود محروم کر لیا ہے۔

اور بارہ مہینے وہ شیطان کی پیروی پر وہ مطمئن ہیں تو اللہ کے یہاں بھی ان کے لئے محرومی کے سوا کچھ نہیں مولانا نے بالخصوص نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ رمضان کے اس مقدس مہینے کو غنیمت جانیں اور اپنا قیمتی وقت لہو و لعب میں ضائع نہ کریں بلکہ روزہ، نماز، تلاوت قرآن، تراویح و تہجد اور دعا و استغفار کے ذریعے اللہ کو راضی کریں-



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *