مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے ایران جوہری معاہدے میں ایک “اسنیپ بیک” میکانزم شامل ہے، جو کسی بھی دستخط کنندہ ملک کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر اسے لگے کہ ایران معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہا تو وہ اقوام متحدہ کی سابقہ پابندیاں دوبارہ نافذ کر سکتا ہے۔
2018 میں جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن سے دستبرداری اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے بعد امریکہ نے اس معاہدے کے تحت اسنیپ بیک میکانزم کو متحرک کرنے کا قانونی حق کھودیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا، جس کے بدلے میں پابندیاں ختم کی جانی تھیں، لیکن امریکی دستبرداری نے معاہدے کو شدید نقصان پہنچایا۔
معاہدے کے دیگر فریق جرمنی، برطانیہ، فرانس، چین اور روس اسنیپ بیک کو متحرک کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ تہران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسنیپ بیک میکانزم کو فعال کیا گیا تو وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے دستبردار ہونے پر غور کرے گا۔ ایران کا موقف ہے کہ اس نے صرف اس وقت اپنے کچھ وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع کیا جب امریکہ نے معاہدے سے علیحدگی اختیار کی اور باقی دستخط کنندگان مغربی پابندیوں کے اثرات کو کم کرنے میں ناکام رہے۔ ایران کا دعوی ہے کہ وہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے اور اس نے جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
ایران پہلے ہی سخت پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کی سابقہ پابندیاں دوبارہ نافذ ہو جائیں تو اس پر زیادہ نمایاں اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ اگر ایران معاہدے کے تحت اپنے کے وعدوں پر عمل پیرا رہتا ہے اور اپنے جوہری سرگرمیوں میں مزید شدت نہیں لاتا تو دیگر فریقین اسنیپ بیک میکانزم کو فعال کرکے شدید ردعمل کا سامنا کیوں کریں گے؟
حالیہ دنوں میں صدر ٹرمپ نے یوکرائن میں کچھ اقدامات کیے ہیں اور اس میں یورپی ممالک کو شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان اقدامات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب آسانی سے مل جاتا ہے۔
جب 2022 کے اوائل میں یوکرین کی جنگ شروع ہوئی، تو یورپی ممالک کو روس سے اپنی معیشتوں کو الگ کرنے اور یوکرین کی مدد کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنے پر مجبور کیا گیا تاکہ وہ واشنگٹن کی پراکسی جنگ میں شریک ہوسکیں۔ اس کے بعد یورپی ممالک میں مہنگائی کا طوفان آیا اور ان کی معیشتوں میں کساد بازاری کا سامنا ہوا، جبکہ موجودہ صورتحال بھی طویل مدتی بحران کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
ان تمام قربانیوں کے باوجود آج ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کی جنگ پر روس کے ساتھ کوئی معاہدہ کررہے ہیں اور انہیں پرواہ نہیں کہ یورپی اس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ جب اس ماہ سعودی عرب میں امریکی اور روسی حکام نے جنگ کے خاتمے پر بات چیت کی، تو نہ یورپ اور نہ ہی یوکرین کو مذاکراتی میز پر بیٹھنے کی اجازت دی گئی۔ حال ہی میں ٹرمپ نے یورپی تینوں ممالک کی طرف سے روسی حملے کی مذمت میں اقوام متحدہ کی قرارداد کو بھی مسترد کردیا۔
یورپ کی موجودہ کمزور پوزیشن سے قطع نظر میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے اختتام پر تقریر کرتے ہوئے چیئرمین کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ یہ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے کہ ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کی صورت میں یورپی ممالک کو کن نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے؟ یورپی ممالک کو بھی معلوم ہے کہ اس کا نتیجہ اس کے حق میں نہیں ہوگا۔
مغربی ایشیا کے تجزیہ کار مہدی خانعلی زادہ اس حوالے سے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین اور برطانیہ بین الاقوامی سطح پر امریکہ سے آزاد ہو کر عمل نہیں کر سکتے۔ کرسٹوف ہیوزگن کا میونخ میں رونا اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ یورپ یوکرین میں روس کو جیتنے نہیں دینا چاہتا۔ لیکن اس کے پاس امریکی منصوبے پر عمل کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔
ایران اور جرمنی، فرانس، برطانیہ اور یورپی یونین کے سیاسی نمائندوں نے گزشتہ سال سے مختلف مسائل پر کئی بار بات چیت کی ہے، جن میں ایران کا جوہری معاہدہ بھی شامل ہے۔ ایرانی نائب وزیر خارجہ برائے قانونی اور بین الاقوامی امور کاظم غریب آبادی نے کہا ہے کہ بات چیت کا ایک نیا دور تین ہفتوں کے اندر ممکن ہے۔ تاہم خانعلی زادہ کا ماننا ہے کہ اسنیپ بیک میکانزم کو فعال کرنے کا انحصار واشنگٹن پر ہے نہ کہ جاری مذاکرات کے نتائج پر۔
انہوں نے مزید کہا کہ یورپ کی فوجی اور سکیورٹی استحکام زیادہ تر امریکہ پر منحصر ہے۔ اگر انہیں کہا جائے کہ اسنیپ بیک میکانزم کو فعال کریں، تو یورپی ممالک ایسا کریں گے خواہ اس کے نتائج ان کے بر خلاف ہی کیوں نہ ہو۔