تحریر:سید سرفراز احمد
ملک میں موجودہ مطلق العنان حکمرانوں کی جانب سےطرح طرح کے ایسے قوانین بناۓ جارہے ہیں جس کا راست تعلق مسلم کمیونٹی سے ہوتا ہے جس کا پس پشت مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں کو قانونی شکنجے میں جکڑا جاۓ یا اس وطن عزیز کی ارض پاک ان پر تنگ کردی جاۓ جس کا مفہوم اس ملک کے مسلمانوں کو ثانوی درجہ کے شہری کی طرف لے جانے کی ایک پیش رفت ہی سمجھا جاسکتا ہے پچھلے ایک دہائی میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح حکمرانوں نے اپنی سیاسی طاقت کے بل پر دفعہ 370 کی منسوخی، تین طلاق کا قانون،جبراً تبدیلی مذہب کا قانون،یکساں سول کوڈ کا قانون ،وقف ترمیمی بل،لوجہاد پر قانون سازی کے حربے اپناۓ اس طرح کے متنازع قوانین کو مسلط کرنے کے پیچھے ایک تو سیاسی مقاصد دوسرا ہندوراشٹر کے خواب کو تکمیل تک پہنچانے کی ایک سعی سمجھی جاسکتی ہے۔
اس وقت ملک کی نو ریاستوں میں لو جہاد پر قانون نافذ العمل کردیا گیا اب مہاراشٹر حکومت بھی اس لوجہاد کےقانون کو لانے کی تیاری کررہی ہے جس وقت شنڈے وزیر اعلیٰ اور فڈنویس نائب وزیر اعلیٰ تھے اس وقت مہاراشٹر کی ہندوتوا تنظیموں نے لوجہاد پر قانون لانے کا پر زور مطالبہ کیا تھا اب فڈنویس کی قیادت میں نئی حکمرانی کی تشکیل کے بعد باضابطہ ڈی جی پی کی سرپرستی میں ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی اب یہ کمیٹی ریاست کی صورت حال کا جائزہ لے گی دیگر ریاستوں میں نافذ لوجہاد قانون کا مطالعہ کرے گی اور دیگر خصوصی ماہرین کی راۓ لے کر مسودہ تیار کرتے ہوۓ ایوان اسمبلی میں یہ قانون پیش کیا جاۓ گا اس قانون کے متعلق حزب اختلاف جماعتوں میں سے این سی پی (شرد پوار) کی رہنما سپریا سولے نے کہا کہ “شادی کرنا یا محبت کرنا ذاتی انتخاب ہے” انھوں نے ریاست اور وزیراعظم نریندر مودی سے اپیل کی کہ وہ ان چیزوں کو درکنار کرتے ہوۓ ملک کی اقتصادی ترقی پر توجہ دیں ابھی دیگر جماعتوں کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا جب یہ قانون ایوان میں پیش ہوگا حزب اختلاف جماعتوں کا کیا ردعمل ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتاۓ گا۔
لوجہاد نام کی اصطلاح ہندوتوا کی دین ہے جو مسلمانوں کے خلاف ایک گہری سیاسی سازش کا حصہ ہے ورنہ نہ اس کا کوئی وجود ہے نہ ہی اس طرح کے کوئی واقعات سامنے آۓ دراصل ہمارے ملک میں مذہبی آزادی ہر مذہب کا ایک بنیادی حق ہے جس کی ضمانت اس ملک کے آئین کی شق نمبر 25اور28 میں دی گئی ہے جو ہر مذہب کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا پے ساتھ ہی ساتھ ایک اور بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ہر مذہب کو اپنے پرسنل لا پر عمل پیراہ ہونے کا پورا اختیار ہے وہیں پر اس نکتہ کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ 1954 میں ملک کی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے خصوصی شادی ایکٹ کے تحت دو مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کو تبدیل کیے بغیر شادی کر سکتے ہیں۔
یعنی ایک قانون پرسنل لا کی آزادی بھی دے رہا ہے اور ایک بین المذاہب کی شادی کرنے کی بھی آزادی دے رہا ہے اب معاملہ کسی بھی مذہب کے فرد کا اختیاری معاملہ ہے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے جب کہ دین اسلام میں بین المذاہب شادی کی اجازت نہیں ہے اگر ہے بھی تو اس کے اپنے اصول و ضوابط ہے لیکن فرقہ پرست تنظیموں نے لوجہاد کی ایک نئی اصطلاح کو ہی پیدا کردیا جو جھوٹ سے پر مغز ہے ایک عرصے سے جھوٹے پروپگینڈے چلاۓ جارہے ہیں کہ اس ملک میں مسلم نوجوان غیر مسلم لڑکیوں کو پیار کے جال میں پھنسا کر ان سے شادی کررہے ہیں اور یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اس ملک کے ہندوؤں کی آبادی کو کم کرنا چاہتے ہیں اس طرح کے کئی دعوے کیئے گئے اور الزامات کی بونچھار لگائی جاتی رہی لیکن اس ملک کے ادارے این آئی اے ہو یا دیگر اس لوجہاد کی نفی کی بلکہ کئی ایک معاملات عدلیہ میں پیش کیئے گئے لیکن کہیں بھی اس طرح کے کوئی ٹھوس شواہد دستیاب نہیں ہوۓ بلکہ پوری طرح سے غلط بھی ثابت ہوۓ جہاں لڑکے اور لڑکیوں نے اپنی مرضی سے شادی کرنے کے بیانات دیئے اب یہ تو آئینی آزادی ہے جس پر عدالتوں کو بھی مجبوراً پروٹیکشن دینا پڑا۔
کیا یہ مضحکہ خیز نہیں ہوگا کہ ریاستی حکومتیں ایک ایسے قانون کا اطلاق کرنے جارہی ہے جس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے حیران کن سوال یہ بھی ہے اگر دستور اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس ملک کا لڑکا یا لڑکی اپنی پسند اور مرضی سے شادی کرسکتا ہے تو عدالتیں ریاستوں کو ایسے قوانین بنانے سے کیوں نہیں روک رہی ہے؟کیا ہندوتوا تنظیمیں یہ ٹھوس ثبوت فراہم کرسکتی ہے کہ ایسی کتنی مسلم تنظیمیں اور جماعتیں ہیں جو مسلم نوجوانوں کو ہندو لڑکیوں سے جبراً شادی کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ؟کیونکہ ایسے بے شمار ویڈیوس عوامی پلیٹ فارمس پر گردش کرتے دکھائی دیتی ہیں جس میں ہندوتوا تنظیموں کے افراد ہندو نوجوانوں کو کھلے عام یہ عہد دلوایا جاتا ہے کہ وہ مسلم لڑکیوں سے محبت کرتے ہوۓ ان سے شادی کریں بلکہ ایسے ڈھیروں واقعات منظر عام پر بھی آچکے ہیں کئی ایک مسلم لڑکیوں کو جھوٹی محبت کا دعوی کرکے ان سے شادی کی جاتی ہے اور پھر بعد میں اذیت ناک سزائیں دے کر یا تو قتل کردیا جاتا ہے یا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ان ہندوتوا تنظیموں نے لوجہاد کے اس فرضی نام کو اکثریتی سماج میں اتناورغلایا گیا کہ جس سے سماج میں نفرت پھیلتی گئی اکثریتی سماج میں اس سے متعلق غصہ بھرنے کی کوشش کی گئی جب کہ اس کی حقیقت کا دور دور تک کوئی جواز نہیں ملے گا بلکہ اس کا فسانہ بنادیا گیا میں یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ ان ہندوتوا تنظیموں کی نظر میں لوجہاد اسی کو کہا جاتا ہے جس میں لڑکا مسلم ہو اور لڑکی غیر مسلم ہمارا سوال یہ ہے اگر لڑکا ہندو ہو اور لڑکی غیر مسلم ہو تو یہ کیا کہلاۓ گا؟ممکن ہےیہاں یہ دستور کی آزادی کا حوالہ دیں گے 1954 کے قانون کی بات کریں گے جب ملک کا دستور تمام مذاہب کو کھلی آزادی فراہم کررہا ہے تو یہ جانب داری اور یہ لوجہاد قانون چہ معنی دارد۔
کتنی شرم ناک بات ہے کہ اس ملک میں ہر ایک نام کے ساتھ جہاد جیسے پاکیزہ لفظ کو لوجہاد،ووٹ جہاد،تعلیم جہاد،لینڈ جہاد،حلال جہاد پتہ نہیں اور کس کس طرح کے فرضی نام دے کر سماج کو پراگندا بنایا جارہا ہے بلکہ قانون بھی بناۓ جارہے ہیں پھر کیا یہ بعید نہیں ہوگا کہ حکومتیں آنے والے کل میں ان تمام فرضی ناموں پر بھی قانون بنانا شروع کردے سب سے ذیادہ شرم ناک بات تو لوک سبھا انتخابات کے دوران کی ہے کیونکہ جب خود اس ملک کے وزیر اعظم نے اپنے اتنے بڑے باوقار عہدے کا بھی پاس و لحاظ نہ رکھتے ہوۓ ووٹ جہاد کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوۓ اس پر سیاست کی تھی تو بھلا کیسے ممکن نہیں کہ سماج میں پھوٹ نہ پڑے آج ملک کی اقلیتوں پر طرح طرح کے غیر دستوری قوانین نافذ کرکے انھیں ہراساں کیا جارہا ہے تاکہ اس قانون کے ذریعہ جبراً مسلم نوجوانوں پر الزامات عائد کرتے ہوۓ انھیں جیلوں میں ٹھونسا جاۓ بھلا یہ سازش نہیں تو اور کیا کہلاۓ گی؟یہاں ایک اور بات یہ بھی واضح ہونی چاہیئے کہ اس وقت ملک کی نو ریاستوں میں لوجہاد قانون نافذ ہے ابھی تک ان ریاستوں میں لوجہاد کےکتنے کیسس درج ہوۓ ہیں؟ جس کا جواب خود ان ریاستوں کے پاس بھی موجود نہیں ہوگا چونکہ یہ صرف جھوٹے دعوے کرتے ہوۓ جھوٹے اعداد و شمار بتاتے ہیں۔
جس کی ایک مثال مہاراشٹر کی ہی دی جاسکتی ہےچھلے سال سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی رئیس شیخ نے ریاستی حکومت کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ ‘لو جہاد’ کے معاملات سے نمٹنے کے لیے پچھلے سال قائم کیے گئے پینل کو ختم کر دیا جائے اور ان کے سوال کے جواب میں محکمہ ترقیات نے حکومت کا حوالہ دے کر کہا کہ بین المذاہب شادی فیملی کوآرڈینیشن کمیٹی کی صرف تین بار میٹنگ ہوئی ہے اور اسے 402 شکایات موصول ہوئی ہیں رئیس شیخ نے سابق ڈبلیو سی ڈی وزیر منگل پربھات لودھا کو نشانہ بنایا جنہوں نے اسمبلی میں دعویٰ کیا تھا کہ مہاراشٹر میں لو جہاد کے ایک لاکھ کیسس ہیں رئیس شیخ نے الزام لگایا تھا کہ لودھا کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے مجموعی طور پر اگر دیکھا جاۓ تو لو جہاد صرف ایک فسانہ ہے لفظ مسلمان اصل نشانہ ہے کیونکہ ملک میں جبراً تبدیلی مذہب کا قانون پہلے سے موجود ہے لہذا لو جہاد کے قانون کی پھر کیا ضرورت ہے؟اس سے ہندوتوا تنظیمیں اقلیتی کمیونٹی کے متعلق اکثریتی کمیونٹی میں نفرت کو بڑھاکر ووٹ بینک کی سیاست کرتے رہتی ہے ورنہ ان کے اصل کاموں کے پردے بے نقاب ہوسکتے ہیں پورے ملک کو خاص طور پر اکثریتی طبقے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت ایک کثیر المذاہب ملک کی حیثیت رکھتا ہے جس کی بنیاد سیکولرزم پر قائم ہے اس کو برقرار رکھنے کے لیئے متحدہ جدوجہد کرنی ہوگی ورنہ اگر کسی ایک کمیونٹی پر مطلق العنان فیصلے اسی طرح تھوپے جائیں گے تو اس ملک کی سیکولرزم کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاۓ گی۔