مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ الناز رحمت نژاد: پاکستان اور بھارت کے درمیان جموں و کشمیر پر اختلافات کو سات دہائیاں گزر چکی ہیں اور اس تنازعے کے نتیجے میں دونوں ممالک تین جنگیں بھی لڑچکے ہیں۔
یہ اختلاف 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے اصولوں کے غیر منصفانہ نفاذ سے شروع ہوا۔ تقسیم کے وقت جموں و کشمیر ہندوستان کی ریاستوں میں سے ایک تھا۔ برطانوی حکومت نے ریاست کے حکمرانوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ جغرافیائی محل وقوع، ثقافتی وابستگی اور عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں۔ تاہم جموں و کشمیر کے مہاراجہ نے عوامی امنگوں اور مذکورہ اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک ایسے وقت میں جب ریاست میں ان کی ظالمانہ حکومت کے خلاف بغاوت اور عوامی مزاحمت عروج پر تھی، “معاہدہ الحاق” پر دستخط کر کے ریاست کو بھارت میں شامل کردیا۔ معاہدے کا قانونی، اخلاقی اور سیاسی لحاظ سے کوئی جواز نہیں تھا۔ گویا یہ معاہدہ اپنی حکومت کو خطرات میں دیکھنے والے مہاراجہ کا فیصلہ تھا جو عوامی خواہشات کے برعکس تھا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اس کے بارے میں تصادم کے بعد مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے ایک خصوصی کمیشن تشکیل دیا جسے “اقوام متحدہ کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان” کا نام دیا گیا، تاکہ اس تنازعے کا منصفانہ حل تلاش کیا جاسکے۔ اس کمیشن نے 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کو دو قراردادیں منظور کیں۔ ان قراردادوں کے مطابق پاکستان اور بھارت دونوں کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو دونوں ملکوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کے بارے میں ریفرنڈم کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دیں۔ تاہم آج تک بھارت نے ان قراردادوں پر عمل نہیں کیا اور کشمیری عوام کی خواہشات کے برخلاف ریاست پر ناجائز قبضہ جاری رکھا ہے۔
عالمی کشمیر آزادی تحریک کے مطابق بھارت نے اپنے غیر قانونی قبضے کو جواز فراہم کرنے کے لیے حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق قانونی تھا۔ دہلی حکومت نے جان بوجھ کر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہ کرنے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ نئی دہلی کے سازشکاروں نے مسائل کو مخلوط کرنے کی سرتوڑ کوشش کی چنانچہ یہ بہانہ پیش کیا گیا کہ اگر کشمیر کو عوامی ریفرنڈم کے ذریعے بھارت سے الگ ہونے کی اجازت دی گئی تو اس سے بھارت کا اتحاد خطرے میں پڑ جائے گا۔ مزید برآں، بھارتی حکومت یہ بھی پروپیگنڈا کرتی رہی ہے کہ کشمیر کی علیحدگی کی صورت میں بھارت کے دیگر حصوں میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی سلامتی اور سیکورٹی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر کی بنیاد 1980 کی دہائی کے اواخر میں اس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے رکھی۔ بعد ازاں اس وقت کی پاکستانی حکومت نے اس دن کو قومی دن اور سرکاری تعطیل کا اعلان کردیا۔ تب سے، ہر سال 5 فروری کو پاکستان بھر میں کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور مختلف شہروں میں بینرز اور پوسٹرز کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر تہران میں واقع پاکستانی سفارت خانے میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس میں اہم شخصیات نے شرکت کی، جن میں ایران میں پاکستان کے سفیر محمد مدثر، قونصل جنرل عصمت حسن، تہران یونیورسٹی اردو ڈیپارٹمنٹ کے زاہد منیر عامر اور ڈاکٹر علی بیات اور پاکستانی سفارت خانے میں ایکو کے صدر سعد خان شامل تھے۔
تقریب کے دوران پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے خصوصی پیغامات پڑھے گئے۔
صدر کا پیغام محمد مدثر تیپو نے جبکہ وزیر اعظم کا پیغام عصمت حسن نے پیش کیا۔
جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ ہر سال 5 فروری کو پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کشمیری عوام کی جائز اور منصفانہ جدوجہد کی غیر متزلزل حمایت جاری رکھے گا۔ صدر زرداری نے کہا کہ مسئلہ جموں و کشمیر دنیا کے قدیم ترین حل طلب تنازعات میں سے ایک ہے، کیونکہ بھارت نے عوامی امنگوں کے برخلاف ریاست کے بڑے حصے پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔
انہوں نے 5 اگست 2019 کو بھارت کی یکطرفہ اور غیر قانونی کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان اقدامات کے ذریعے بھارت نے کشمیری عوام کو ان کے ہی علاقے میں بے اختیار بنانے کی کوشش کی، جس سے صورت حال مزید سنگین ہو گئی۔ بھارت انتظامی، عدالتی اور قانونی اقدامات کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے قبضے کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، مگر یہ اقدامات کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو دبانے میں ناکام رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 78 سالوں میں کشمیری عوام نے بے شمار قربانیاں دیں تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرسکیں۔ اس موقع پر، صدر زرداری نے بھارتی ریاستی دہشت گردی اور ظلم کے خلاف کشمیری عوام کی استقامت کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
صدر پاکستان نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی سنگین ہے کیونکہ بھارت نے کشمیری عوام کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کو سلب کر رکھا ہے جس کی وجہ سے کشمیری عوام مسلسل ریاستی جبر و تشدد کا سامنا کررہے ہیں۔ کشمیری عوام خوف اور دہشت کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جبکہ ان کے حقیقی عوامی نمائندے جیلوں میں قید ہیں۔ انہوں نے بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف طاقت کے وحشیانہ استعمال کی شدید مذمت کی۔
صدر زرداری نے کہا کہ میڈیا کو زبردستی خاموش کر دیا گیا ہے، لیکن بھارت جتنا بھی ظلم کرے، کشمیری عوام کے عزم اور ان کی جائز جدوجہد کو کمزور نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ 5 فروری عالمی برادری کو کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم اور ان کی ذمہ داری کی یاددہانی کراتا ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی 77 سال پرانی قراردادوں پر عمل کرے اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی جدوجہد کی حمایت کرے۔
صدر پاکستان نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان ہمیشہ کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی منصفانہ جدوجہد کی مکمل اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔
مسئلہ جموں و کشمیر: پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون
پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام ہر سال اس دن کو مناتے ہیں تاکہ کشمیری عوام کی جائز اور منصفانہ جدوجہد کے ساتھ اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ حق خودارادیت بین الاقوامی قانون اور بنیادی اصول ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہر سال ایک قرارداد منظور کرتی ہے جس میں تمام اقوام کے اس جائز حق کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاہم کشمیری عوام گزشتہ 78 سالوں سے اس حق سے محروم ہیں۔
وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر دنیا کے سب سے زیادہ فوجی محصور علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں کشمیری عوام خوف اور جبر کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو طویل عرصے تک قید میں رکھا جاتا ہے اور ان کی املاک ضبط کی جاتی ہیں۔ کشمیری عوام کی حقیقی نمائندہ سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے تاکہ اختلاف رائے کو دبایا جا سکے۔ بھارت 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے ذریعے کشمیری عوام کو ان کے ہی وطن میں بے اختیار بنانے اور علاقے کی آبادیاتی و سیاسی ساخت کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ حالیہ مشرق وسطی کے حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دیرینہ تنازعات کو نظرانداز کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت کو کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینے پر مجبور کرے۔
انہوں نے اپنے پیغام کے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ جموں و کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی ستون رہے گا۔ پاکستان کشمیری عوام کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں واضح کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے کشمیری عوام کی استقامت اور قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا کہ پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لیے ان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔